پکڑے گئے ملزمان کو بچانے کیلیے پولیس اہلکار بھی معاون ہوتے ہیں، فائل فوٹو
 پکڑے گئے ملزمان کو بچانے کیلیے پولیس اہلکار بھی معاون ہوتے ہیں، فائل فوٹو

جیب کتروں نے کراچی میں ڈیرے ڈال لیے

اقبال اعوان :

’’عید سیزن‘‘ کمانے کیلئے پنجاب کے کئی پاکٹ مار گروپوں نے کراچی میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ شہر میں عید شاپنگ کے آغاز کے ساتھ ہی جیب ترشی کی وارداتیں بڑھ گئیں۔ یومیہ 200 وارداتیں ہونے لگیں۔ بیشتر شہری، پولیس کی مایوس کن کارکردگی سے تنگ ہو کر رپورٹ نہیں کراتے ہیں۔ طارق روڈ، ڈیفنس، نارتھ ناظم آباد، حیدری، بہادر آباد میں جیب تراش عورتیں بھی وارداتیں کرنے لگیں۔

واضح رہے کہ شہر میں لوٹ مار اور ڈکیتی کی بڑھتی وارداتوں کے ساتھ ساتھ جیب تراشی کا ریشو بڑھ گیا۔ رمضان سے قبل جب پنجاب اور سندھ سے گداگروں کی بڑی تعداد کراچی سیزن کمانے آتی ہے اس دوران ڈکیت، چور اور جیب تراش بھی گداگروں کے روپ میں آجاتے ہیں۔ پنجاب کے شہروں لاہور، ملتان اور فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے جیب تراش گروپ رمضان میں آکر زیادہ وارداتیں کرتے ہیں۔

گزشتہ رمضان کے دوران پنجاب کے کئی گروپ جیب تراشی کے الزام میں پکڑے جا چکے ہیں۔ کراچی میں جرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور پولیس ٹھوس اقدامات نہیں کررہی ہے۔ کراچی میں عام دنوں میں 50 سے 60 جیب تراشی کی وارداتیں ہوتی تھیں۔ شاہ لطیف ٹائون کا سندھی گروپ، مچھر کالونی کا بنگالی گروپ اور بلدیہ کے خان گروپ کے علاوہ چھوٹے چھوٹے کئی گروپ وارداتیں کرتے ہیں۔ اب پولیس کے سندھ سے تعلق رکھنے والے بعض اہلکار بھی جیب تراشوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور پکڑے جانے کی صورت میں پولیس کارڈ دکھا کر ساتھیوں کو رہا کرا لیتے ہیں۔ بعض تھانوں کے کرپٹ اہلکار سرپرستی کرتے ہیں۔

کراچی میں رمضان کے دوران گلستان جوہر میں شہریوں نے جیب صاف کرنے والے دو جیب کتروں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔ تاہم ایک کو مک مکا کر کے چھوڑ دیا گیا۔ دوسرے کو گٹکے برآمدگی الزام میں فٹ کر دیا گیا۔ شہر میں جیب تراشی کے شکار شہری بہت کم پولیس کے پاس جاتے ہیں کہ ایک جانب پولیس رپورٹ کرانے کے بجائے بولتی ہے کہ روزنامچہ کرا دو۔ اگر شناختی کارڈ یا دیگر ضروری کاغذات ساتھ تھے ورنہ رقم کا اندراج نہیں کیا جاتا ہے۔ شاہ لطیف ٹائون سے سات افراد کا گروپ صبح سے شام تک بلوچ کالونی تک شاہراہ فیصل پر چلنے والی گاڑیوں میں آتا جاتا ہے۔ آج کل جیب تراش سرجیکل بلیڈ سے شلوار یا بنیان کی جیب کاٹ دیتے ہیں جبکہ زیادہ توجہ موبائل پر دی جاتی ہے۔

گروپ گاڑیوں میں چڑھ کر دروازوں کو کھڑے ہو کر بلاک کر دیتا ہے اترنے والے یا چڑھنے والے پوری طرح دبا ک چیک کرتے ہیں اب یہ بات کھلے عام ہوتی ہے کہ جیب تراش کی ٹولی چڑھ گئی ہے اگر کوئی موقع پر پکڑے تو مل کر تشدد کرتے ہیں اور اتر کر چلے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگوں نے مددگار 15 پر اطلاع دی جو اٹینڈ نہیں ہوتی ہے جبکہ اطلاع دینے پر اہلکار موبائل پر کہتے ہیں کہ مقامی تھانوں پر جاکر رپورٹ کرائو۔

صدر سے کلفٹن جانے والی بس کے اندر متاثرین مدد کو پکارتے ہیں کوئی مدد نہیں کرتا ہے آج کل مسافر گاڑیوں میں چڑھ کر موبائل استعمال کرنے والوں کو دیکھا جاتا ہے اور اترتے ہوئے دھکے دے کر یا لڑائی کر کے ہاتھا پائی کرتے ہوئے موبائل اور رقم نکال لی جاتی ہے شہر میں ماڑی پور روڈ، یونیورسٹی روڈ، شاہراہ فیصل، راشد منہاس روڈ، طارق روڈ، شاہراہ پاکستان، ایم اے جناح روڈ، کورنگی روڈ سمیت دیگر سڑکوں پر صبح اور شام کو چھٹی کے وقت جیب تراش گاڑیوں میں رش کے دوران، چھت پر چڑھتے اترتے ہوئے صفائی دکھا جاتے ہیں۔ شہر میں عید شاپنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

اب خواتین کو لوٹنے والی جیب تراش عورتیں بڑھ گئی ہیں جو مسافر گاڑیوں، شاپنگ سینٹرز، بازار، مارکیٹوں میں خواتین کے پرس سے موبائل فون، رقم نکالتی ہیں یا طلائی چین کاٹ کر نکال لیتی ہیں۔ طارق روڈ پر جیب تراش عورتیں زیادہ وارداتیں کرتی ہیں ان میں اکثر عورتوں کا تعلق ملتان کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہے جو گداگروں کے ساتھ رمضان اور عید سیزن کمانے آتی ہیں۔ پولیس ان جیب تراش عورتوں اور مردوں سے شہریوں کو بچانے میں ناکام ہے اور کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے ہیں۔