دفتر ملازمین کی جان پر بنی ہوئی ہے، فائل فوٹو
 دفتر ملازمین کی جان پر بنی ہوئی ہے، فائل فوٹو

علیمہ خان نے پی ٹی آئی مرکزی کا کنٹرول سنبھال لیا

امت رپورٹ :

سوشل میڈیا پر یہ خبریں چل رہی ہیں کہ عمران خان نے جیل میں ملاقات کرنے والے رہنماؤں کے ذریعے علیمہ خان کو سخت پیغام بھیجا ہے کہ وہ پارٹی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ یہ کہانی کہاں تک درست ہے؟ اس بارے میں فوری طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم جب سن گن لینے کے لیے پی ٹی آئی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو اس کے برعکس کہانی سامنے آئی۔ وہ یہ کہ پچھلے کچھ عرصے سے علیمہ خان نے پارٹی کے مرکزی دفتر کے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں۔

ان قابلِ اعتماد ذرائع نے بتایا کہ علیمہ خان تقریباً روزانہ پارٹی سیکرٹریٹ میں آکر بیٹھ رہی ہیں۔ اس وقت دفتر کے تقریباً تمام معاملات انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں۔ وہ مختلف احکامات بھی جاری کرتی ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ انکار کردے۔ سب ڈرتے ہیں کہ عمران خان کی بہن ہیں۔ ان ذرائع کے بقول خیبرپختونخوا میں ہونے والے چند پارٹی ایونٹس کو بھی انہوں نے مینیج کیا۔

اب اس خبر کی طرف آتے ہیں جو سوشل میڈیا پر چل رہی ہے اور بعض ولاگرز نے اس پر ولاگ بھی بنائے ہیں۔ جس میں پی ٹی آئی کے سینئر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے علیمہ خان کو پارٹی معاملات سے دور رکھنے کی ہدایت کردی ہے۔ یہ معاملہ کور کمیٹی کے اجلاس میں ڈسکس ہوا۔ عمران خان سے ملاقات کرنے والے چند رہنماؤں نے ان کا پیغام عمر ایوب کو پہنچایا کہ خان صاحب نے واضح طور پر کہا ہے کہ علیمہ خان اور عمیر نیازی دونوں کو پارٹی معاملات سے دور رکھا جائے۔ کیونکہ بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ علیمہ خان کی مداخلت سے پارٹی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

بانی پی ٹی آئی، علیمہ خان اور عمیر نیازی کے حوالے سے عمر ایوب کو پہلے بھی زبانی ہدایات دے چکے تھے۔ لیکن عمر ایوب نے ان ہدایات کو علیمہ خان تک پہنچانے سے گریز کیا۔ اب عمران خان نے سختی سے عمر ایوب کو پیغام دیا ہے کہ علیمہ خان کے حوالے سے ان کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔

ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ پارٹی کے کسی معاملے یا فیصلے پر علیمہ خان کو رپورٹ نہ کیا جائے۔ جبکہ حماد اظہر کے استعفے کو بھی اسی معاملے سے جوڑتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ پارٹی معاملات میں علیمہ خان اور عمیر نیازی کی مداخلت پر ناراض تھے اور انہوں نے عمران خان کو اس حوالے سے پیغام بھی بھجوایا تھا۔ جبکہ عمیر نیازی، جو عمران خان کے قریبی عزیز بھی ہیں، پر پارٹی ٹکٹوں کی فروخت اور لین دین کے الزامات بھی عائد کئے گئے تھے۔

واضح رہے کہ حماد اظہر نے جو پی ٹی آئی پنجاب کے صدر بھی ہیں، اچانک استعفیٰ دے دیا تھا۔ اپنے استعفیٰ کی وجہ انہوں نے بظاہر یہ بتائی تھی کہ وہ مفرور ہونے کی وجہ سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پا رہے۔ لہذا بہت سوچ و بچار کے بعد تحریک انصاف پنجاب کی صدارت اور جنرل سیکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔ کیونکہ اس وقت پنجاب میں پارٹی کی موثر قیادت کا گراؤنڈ پر موجود ہونا اور عمران خان تک براہ راست رسائی ضروری ہے۔

تاہم حماد اظہر کا استعفیٰ قبول نہیں کیا گیا۔ دوسرے روز ہی بیرسٹر گوہر نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ کی، جس میں کہا گیا کہ حماد اظہر کے استعفیٰ کے معاملے کو عمران خان کے سامنے رکھا گیا اور ان کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں اسے منظور نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس معاملے پر جب پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والے ایک ذریعہ سے رابطہ کیا گیا تو اس کا کہنا تھاکہ یہ اس کے علم میں نہیں کہ عمران خان نے علیمہ خان کو پارٹی سے دور رکھنے کی کوئی ہدایت کی ہے یا نہیں لیکن وہ یہ تصدیق ضرور کرسکتے ہیں کہ آج کل علیمہ خان نے پی ٹی آئی سیکریٹریٹ اسلام آباد کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں اور ایسا ممکن نہیں کہ عمران خان اس سے لاعلم ہوں۔

ذریعے کے بقول ان کے علم میں یہ بھی ہے کہ علیمہ خان کو پارٹی کا عارضی چیئر مین بنانے پر بھی کچھ عرصہ پہلے غور ہوا تھا۔ عمران خان کا خیال تھا کہ وہ پہلے ہی جیل میں ہیں۔ بشریٰ بی بی کو بھی سزا ہوچکی۔ ایسے میں پارٹی سنبھالنے کے لئے سب سے موزوں ان کی بہنیں ہوسکتی ہیں، جن کی وفاداری پر شک نہیں۔ لیکن پھر اس تجویز پر عمل نہیں ہوسکا۔ شاید بشریٰ بی بی اس میں رکاوٹ ہوں۔ نند اور بھاوج کے تعلقات ویسے بھی خوش گوار نہیں۔

ذریعے کے مطابق جہاں تک سوشل میڈیا پر چلنے والی خبر کا تعلق ہے، ہوسکتا ہے کہ پنجاب کے پارٹی معاملات میں علیمہ خان اور عمیر نیازی کی مداخلت پر حماد اظہر سمیت دیگر رہنماؤں نے عمران خان تک شکایات پہنچائی ہوں۔ اس لئے علیمہ خان نے اسلام آباد کے دفتر میں ڈیرے ڈال لیے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان سے مل کر آنے والا ہر وکیل یا رہنما ایک دوسرے سے الگ اسٹوری سناتا ہے۔ یہی عمران خان کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جس سے اس کے قریبی لوگ ہی واقف ہیں۔ وہ یہ کہ سب کو ایک دوسرے سے بدگمان رکھو۔

مثال کے طور پر شیر افضل مروت نے جب یہ اعلان کیا تھا کہ عمران خان نے انہیں بتایا ہے کہ وہ بیرسٹر گوہر کو چیئرمین نامزد کررہے ہیں تو ٹھیک اسی دوران لطیف کھوسہ قسمیں کھا رہے تھے کہ وہ ابھی عمران خان سے مل کر آئے ہیں انہوں نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ شیر افضل مروت کی بات درست نکلی تھی۔ ذریعے کے مطابق اب بھی یہ خارج از امکان نہیں کہ جب چند رہنما عمران خان کے پاس علیمہ خان اور عمیر نیازی کی شکایات لے کر پہنچے ہونگے تو انہیں بانی پی ٹی آئی نے یہ پیغام دے کر بھیج دیا کہ ان دونوں کو پارٹی معاملات سے دور رکھا جائے۔ اس پر بشریٰ بی بی کی ناراضی کا بھی خطرہ تھا جو کسی صورت پارٹی پرعلیمہ خان کا غلبہ نہیں چاہتیں۔

دوسری جانب بہنوں کو بھی عمران خان نے سرگرمیاں جاری رکھنے کا کہہ رکھا ہوگا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ علیمہ خان پارٹی کے تمام منتخب ارکان پارلیمنٹ کو ہدایات جاری کر رہی ہوں اور عمران خان کو اس کا علم ہی نہ ہو۔ چند روز پہلے علیمہ خان نے پی ٹی آئی کے ارکان قومی و صوبائی کو پابند کیا کہ وہ تمام عمران خان کی ہر سماعت پر اپنی موجودگی یقینی بنائیں۔