محمد قاسم:
پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) کا تصدیقی عمل مکمل کرلیا گیا ہے۔ تقریباً 25 لاکھ افغان باشندوں کو عید کے بعد واپس بھجوانے کا آغاز کیا جائے گا۔ واپسی کے منصوبے پر عملدرآمد کیلئے کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور، ڈی آئی خان، بنوں اور لنڈی کوتل میں ہولڈنگ سینٹرز بنائے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے تیرہ مارچ کو تمام صوبائی وزارت داخلہ کو ایک مراسلہ ارسال کیا تھا۔ جس میں افغان سٹیزن کارڈز رکھنے والے تمام افراد کی میپنگ، تصدیق اور ان کے نقشہ جات بناکر انہیں وفاقی حکومت کو ارسال کرنے اور اے سی سی کارڈز کا تصدیقی عمل 25 مارچ تک مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی۔
صوبائی وزارت داخلہ و قبائلی امور کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تصدیقی عمل 25 مارچ کو مکمل ہونا تھا۔ لیکن اب 31 مارچ تک مکمل ہوجائے گا۔ میپنگ کا عمل تقریباً آخری مراحل میں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت رضاکارانہ طور پر جانے والوں کیلئے ایک ماہ کا عرصہ دے گی اور آئندہ دو ماہ میں اس عمل کو مکمل کیا جائے گا۔ ایک ماہ کے اندر نہ جانے والوں کو زبردستی بھجوایا جائے گا۔ اس کیلئے صرف وفاقی حکومت کا اعلان باقی ہے۔ مذکورہ افسر سے جب پوچھا گیا کہ پی ٹی آئی تو افغان مہاجرین کی واپسی کے خلاف ہے اور اس صوبے میں ان کی حکومت ہے۔ اگر صوبائی حکومت تعاون نہ کرے تو منصوبے پر عملدرآمد کیسے ہوگا؟
انہوں نے بتایا کہ افغان مہاجرین کی نگرانی اور ان کو امداد وفاقی حکومت کی جانب سے دی جاتی ہے۔ اگر وفاقی حکومت کے منصوبے پر تعاون نہ کیا گیا تو صوبے کے مالی حالت مزید ابتر ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ وفاق کی جانب سے امداد بند کرنے کے بعد صوبے کو ان لاکھوں افغانوں کو تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات دینا پڑیں گی اور اس وقت صوبے کی مالی حالت اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔ دوسری جانب UNHCR بھی وفاقی حکومت کے ذریعے تعاون کرتی ہے۔ اگر حکومت نے UNHCR کو حکم دیا تو مہاجرین کو جانا پڑے گا۔
دوسری جانب پشاور میں مقیم افغان مہاجرین نے اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حکومت نے پہلے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ انہیں کم از کم 6 ماہ تک کا عرصہ دیا جائے گا۔ لیکن اب ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ انہیں صرف ایک ماہ کا عرصہ دیا جائے گا۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ افغان باشندوں کے جائز کاروبار اور جائیدادوں کی قیمت حکومت اداکرے تاکہ انہیں جانے میں آسانی ہو۔ کیونکہ گزشتہ مہینوں میں جانے والے افغانوں کی جائیدادوں پر یہاں قبضہ کرلیا گیا۔
ادھر ذرائع کے مطابق طالبان کی حکومت نے افغان مہاجرین کی دوسرے مرحلے کی واپسی کو ملتوی کرنے کیلئے کوشش شروع کردی ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ مل کر لائحہ عمل طے کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم پاکستان طالبان کے حوالے سے اب پالیسی تبدیل کرنے کیلئے تیار نہیں اور ذہنی طور پر حکومت پاکستان اور سیکورٹی اداروں کے درمیان افغان مہاجرین کی واپسی پر اتفاق پایا جاتا ہے۔
افغان مہاجرین کی واپسی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھا۔ تاہم اس پر کئی برسوں سے عملدرآمد نہیں کیا گیا اور اب اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق 20 سے 25 لاکھ افغانوں کو ایک ماہ کے اندر اندر واپس بھجوایا جائے گا۔ جو مہاجرین کی واپسی کی سب سے بڑی تعداد ہوگی۔