محمد علی:
سائبر کی دنیا میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی شیطانی تنظیم 5 آئیز نے چین کے خلاف گٹھ جوڑ بنا رکھا ہے۔ امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی جانب سے چین پر حکومتی سرپرستی میں انٹیلی جنس معلومات ہیک کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
ایسے ہی الزامات امریکا روس پر بھی لگاتا ہے۔ جن کا مقصد بدنیتی پر مبنی اور خالصتاً سیاسی ہے۔ ہیکنگ اور ڈیٹا چوری کے الزامات کے ذریعے امریکا بیجنگ پر نئی پابندیاں کیلئے میدان تیار کرنا چاہتا ہے۔ دی گلوبل ٹائمز کے مطابق پیر کو برطانیہ اور امریکہ نے چین پر سائبر حملے کرنے کا جھوٹا الزام لگایا اور چین پر پابندیاں عائد کر دیں۔ اس کے بعد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی مشترکا طور پر چین پر سائبر جاسوسی کی نام نہاد وسیع مہم میں ’’بڑے بھائی‘‘ امریکا کیلئے آگئے۔
گزشتہ برس کینیڈا کی وزارت خارجہ نے چین پر سائبر حملے کرنے کا الزام لگایا تھا۔ تازہ واقعے میں امریکی اور برطانوی حکام نے چینی ریاست سے منسلک ہیکنگ گروپ ’ایڈوانسڈ پرسسٹنٹ تھریٹ‘، جو اے پی ٹی 31 کے نام سے معروف ہے، کے ہیکروں پر ’’بدنیتی پر مبنی‘‘ سائبر مہم چلانے کا الزام لگایا ہے۔ امریکہ نے پیر کو ان ہیکرز پر چین کے ’معروف ناقدین‘ کو نشانہ بنانے کیلئے ان کے کمپیوٹرز میں تکنیکی مداخلت کرنے کا الزام بھی لگایا۔
واشنگٹن میں امریکی محکمہ خزانہ نے کہا کہ اس نے ووہان ژیاؤ روئزیچی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ کے خلاف کارروائی کی ہے۔ جو چین کی وزارت برائے اسٹیٹ سیکورٹی کی صف اول کی کمپنی کے طور پر کام کرتی ہے اور جس نے مبینہ طور پر ’’بدنیتی پر مبنی متعدد سائبر آپریشنز کیلئے ڈھال کے طور پر کام کیا ہے‘‘۔
محکمہ خزانہ نے ووہان کمپنی سے وابستہ دو چینی شہریوں ژاؤ گوانگ زونگ اور نی گاؤبین کو بھی مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ان کارروائیوں کے دوران دفاع، ایرو اسپیس اور توانائی سمیت امریکہ کے کلیدی انفرااسٹرکچر سیکٹر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
امریکی محکمہ انصاف نے ژاؤ، نی اور پانچ دیگر ہیکرز پر کمپیوٹرز میں مداخلت اور وائر فراڈ کی سازش کا الزام بھی لگایا ہے۔ کہا گیا کہ وہ گزشتہ چودہ برس سے سائبر مہم میں ملوث تھے، جس میں ’’امریکی اور غیر ملکی ناقدین، کاروباری اداروں اور سیاسی عہدیداروں کو نشانہ بنایا گیا تھا‘‘۔
برطانوی اخبار دی ٹائمز کے مطابق برطانیہ کے نائب وزیراعظم اولیور ڈاؤڈن نے الزام لگایا ہے کہ چین برطانوی سیاستدانوں پر سائبر حملوں کے پیچھے ہے۔ اس کے بعد امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی چین پر مغرب کے خلاف سائبر جاسوسی کی سرگرمیاں کرنے کا الزام لگایا ہے، اور چین کو ڈومیسٹک سائبر حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
چین میں فودان یونیورسٹی کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف گلوبل سائبر اسپیس گورننس کے ڈائریکٹر شین یی کے مطابق فائیو آئیز اتحاد کی نظر میں آن لائن دنیا اور ڈیجیٹل ڈیٹا مقابلے کیلئے اسٹرٹیجک وسائل ہیں اور اس کی طرف سے چین کو ولن بنانا صرف سائبر اسپیس میں بالادستی قائم کرنے کیلئے ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فائیو آئیز سب سے بڑی انٹیلی جنس آرگنائزشن ہے اور امریکا ہیکنگ کی ریاست ہے۔
واشنگٹن میں چینی سفارتخانہ نے فوری طور پر ان الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ لیکن چینی سفارتخانہ نے پابندیوں کے بارے میں برطانیہ کے استدلال کو ’’مکمل طور پر من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی بہتان‘‘ قرار دیا۔ پیر کے روز نیوزی لینڈ کی سیکیورٹی کی وزیر جوڈتھ کولنز نے بھی کہا کہ 2021ء میں ملکی پارلیمان کو اسی چینی ہیکنگ گروپ نے نشانہ بنایا تھا۔ تاہم کولنز نے کہا کہ نیوزی لینڈ چین پر پابندی عائد کرنے میں امریکہ اور برطانیہ کی تقلید نہیں کرے گا۔ کیونکہ ویلنگٹن کے پاس ایسا کوئی قانون نہیں، جو اسے ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہو۔ چین نے نیوزی لینڈ کے اس الزام کو بھی بے بنیاد قرار دیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ متعلقہ ممالک کو کسی ثبوت کے بغیر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنے دعووں کے حق میں ثبوت پیش کرنا چاہئیں۔ وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ’’ہم ایسے بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں‘‘۔