عمران خان :
کروڑوں روپے مالیت کے کنٹینرز کاٹ کر کراچی کی شیرشاہ کباڑ مارکیٹ میں فروخت کئے جانے کے اسکینڈل میں سنسی خیز انکشافات سامنے آگئے۔ کنٹینرز چھین کر اور چوری کرکے کاٹ کر مارکیٹ میں بیچنے والے نیٹ ورک کو قابو کرنے پر توجہ دینے کے بجائے کسٹمز حکام نے معاملے کو متنازعہ بنا دیا۔ متعلقہ کسٹمز افسران کے حوالے سے لاکھوں روپے کی رشوت وصولی کی تحریری شکایات کسٹمز حکام کو ارسال کردی گئیں، جس پر انکوائری کا آغاز کردیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق سکھن تھانے کی حدود پورٹ محمد بن قاسم صنعتی ایریا کی شاہ کے مزار کے قریب سے نامعلوم مسلح ملزمان نے 4 مارچ 2024ء کی شب ساڑھے 12 بجے اسکریپ اور قیمتی مشینری سے لوڈ ٹرالر نمبر 7275 /T چھین لیا اور فرار ہو گئے۔ سکھن پولیس نے واقعہ کا مقدمہ نمبر 141/2024 الحمد ا نٹرنیشنل کمپنی کے آپریشن مینجر عاطف اقبال کی مدعیت میں درج کر لیا۔ اس دوران ایس ایس پی انویسٹی گیشن ضلع ملیر کی جانب سے اس کیس پر خصوصی توجہ دی گئی۔
کیس کی تفتیش میں ایس آئی او سکھن جمشید اقبال چیمہ نے ملوث ملزمان کا نا صرف سراغ لگایا، بلکہ کامیاب کارروائی کرتے ہوئے پاک کالونی تھانے کی حدود شیر شاہ گودام میں چھاپہ مار کر 2 ملزمان را نا غوث محمد اور رانا محمد عظیم کو گرفتار کر کے موقع سے ایک کروڑ روپے سے زائد مالیت کا چھینا گیا اسکریپ اور مشینری برآمد کر لی گئی۔ بعد ازاں مذکورہ پولیس پارٹی نے ملزمان کی نشاندہی پر شاہ لطیف تھانے کی حدود پیر سر ہندی گوٹھ میں ایک کمپاونڈ پر چھاپہ مارا تو مذکورہ ڈکیت گروہ کے کارندے گیس کٹر اور سلینڈر کے ذریعے ٹرالر اور کنٹینر کو کاٹ کر اسکریپ بنانے میں مصروف تھے۔
ملزمان نے پولیس کو دیکھ کر دیواریں پھلانگ کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ تاہم ایس آئی او سکھن جمشید اقبال چیمہ اور سب انسپکٹر نور سلطان نے پولیس پارٹی کے ہمراہ گھیراؤ کر کے 6 ملزمان تواب علی جوکھیو، تراب علی جوکھیو، شہباز ، نواز ، سلمان اور محمد شفیق کو گرفتار کر لیا۔ جبکہ ٹرالر اور کنٹینر کے کٹے ہوئے تمام حصے بھی برآمد کر لئے گئے۔
ملزمان نے ابتدائی تفتیش کے دوران بتایا کہ میٹروول کے رہائشی خرم شہزاد، عبدالقادر، رضوان اور جاوید عرف شینا اسلحہ کے زور پر کراچی کے مختلف علاقوں سے ٹرالرز اور قیمتی مشینری سے لدی گاڑیاں چھین کر شاہ لطیف تھانے کی حدود میں واقع مذکورہ کمپائونڈ میں پہنچاتے ہیں۔ گرفتار ملزمان انہیں کاٹ کر اسکریپ بنانے کے بعد گرفتار ملزمان را نا غوث محمد اور رانا محمد عظیم کے پاس کرین کے ذریعے ٹرکوں اور مزدا گاڑیوں میں لوڈ کر کے شیر شاہ پہنچا دیتے ہیں۔
بعد ازاں فروخت کر کے رقم پورے گروہ کے ممبران میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ ملزمان نے ابتدائی طور پر شہر کے مختلف علاقوں سے کروڑوں روپے مالیت کے ٹرالرز، اسکریپ اور قیمتی مشینری چھینے کا اعتراف کیا ہے پولیس ملزمان کے 14 ہم کارندوں سمیت دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کی کوششیں جاری ہیں ۔
واضح رہے کہ یہ ایک اہم معاملہ تھا کیونکہ کنٹینرز 2019ء سے پہلے3 سے 5 ہزار ڈالر تک میں مل جاتے تھے۔ تاہم اب یہ 12سے 14ہزار ڈالر فی کنٹینر ملتے ہیں۔ اس لئے ایک، ایک کنٹینر کمپنیوں کے لئے اہم ہوتا ہے۔ ان کو اس طرح دھڑلے سے کاٹ کر کباڑیوں کو فروخت کرنے والے ملزمان کی منظم چین ہے۔
دوسری جانب کسٹمز حکام اس معاملے کو اپنی غیر سنجیدگی سے خراب کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اب تک پولیس نے اس اسکینڈل میں ملوث 11ملزمان کو گرفتار لیاہے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر پولیس کی تمام ترکارروائی کے باوجودمحکمہ کسٹمزکے اپریزمنٹ ویسٹ نے اسی کیس میں ایک اورمقدمہ درج کرلیا۔
ذرائع کے بقول اس سلسلے میں عدالت نے پولیس کی جانب سے برآمد کیا جانے والا سامان فوری طورپر کسٹمزکے حوالے کرنے کے احکامات جاری کئے۔ تاہم ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانزٹ ٹریڈنے چوری شدہ سامان واپس لینے کے لئے تاحال فارم ڈی کا اجرا نہیں کیا جبکہ بانڈڈ کیریئر میسرز ڈاکس پرائیویٹ لمیٹڈکی جانب سے ڈائریکٹوریٹ کو فارم ڈی کے اجرا کے لئے دومکتوب ارسال کئے جاچکے ہیں۔
ذرائع کے بقول جب پولیس کی جانب سے اس کیس پر تفتیش کی جارہی تھی اس وقت پولیس نے بھی ملزمان کی جانب سے گلشن معمار کے قریب چھوڑے گئے ڈرائیور سے تفتیش کی تھی۔ تاہم اس کو بے قصور قرار دیکرچھوڑ دیا تھا۔ ذرائع نے بتایاکہ ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانزٹ ٹریڈکے افسران کاکہنا ہے کہ پہلے چوری شدہ سامان کی جانچ پڑتال کی جائے گی اوراس کے بعد ہی فارم ڈی کا اجرا کیا جائے گا۔ جانچ پڑتال سے قبل سامان واپس نہیں لیاجائے گا۔
اس ضمن میں کسٹمز افسران کاکہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق ضروری ہے کہ شیرشاہ گودام سے برآمدہونے والا سامان واقعی وہی سامان ہے جو میسرزکلاسک امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کی جانب سے درآمد کیا گیا تھا یا سامان تبدیل ہوگیا ہے۔ حالانکہ یہ کام بھی کسٹمز حکام کا ہی ہے، لیکن اب تین ہفتے سے زائد گزرنے کے باجود کسٹمز ڈائریکٹوریٹ جنرل افغان ٹرانزٹ اور کسٹمز ویسٹ اپریزمنٹ کے افسران اس کی تصدیق نہیں کرسکے ہیں۔
معاملے میں اہم موڑ اس وقت آیا جب ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ اپریزمنٹ ویسٹ نے بانڈڈ کیریئر کے خلاف 12 مارچ کو مقدمہ درج کرکے بانڈڈ کیریئر میسرز ڈاکس پرائیوٹ لمیٹڈ کے مالک کو پولیس اسٹیشن بلا کرگرفتارکرلیا تھا۔ تاہم بعد ازاں کیس بنانے والے افسران کے اپنی ہی کلکٹرعرفان واحدکی مداخلت پرگرفتار بانڈڈ کیریئرکو چھوڑ دیا گیا۔
اسی دوران کسٹمز کراچی کے ایک متعلقہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ٹرانزٹ ٹریڈکے خلاف شکایتی مکتوب، چیف کلکٹر، ڈائریکٹرجنرل ٹرانزٹ ٹریڈ اور کلکٹر اپریزمنٹ ویسٹ کو ارسال کیاگیا۔ جس میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ٹرانزٹ ٹریڈ پر الزام عائدکیا گیا کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر نے بانڈڈ کیریئرکے حق میں رپورٹ بنانے کے لئے پانچ لاکھ روپے طلب کئے جس کی ادائیگی کردی گئی۔ لیکن بعد ازاں مزید 10 لاکھ روپے طلب کئے گئے اور نہ دینے پر اپریزمنٹ کے افسران سے جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا گیا۔