امت رپورٹ:
اس ماہ رمضان کے دوران ملک بھر کے یوٹیلیٹی اسٹورز پر اکتالیس ارب روپے سے زائد کی خریداری کی گئی۔ یہ اعداد و شمار اٹھائیسویں روزے تک کے ہیں۔ کارپوریشن ذرائع کے مطابق ایک طویل عرصے بعد یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن نے رمضان پیکج سے متعلق اپنا فروخت کا ہدف (Sale Target) پورا کیا ہے۔پچھلے پانچ چھ برس سے یہ ٹارگٹ حاصل نہیں ہو رہا تھا۔ تاہم اس کامیابی میں اپنا حصہ ڈالنے والے ملازمین صلے سے محروم رہے۔
واضح رہے کہ اس برس حکومت نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا رمضان پیکج دیا تھا جو ساڑھے سات ارب روپے کا تھا۔ بعد ازاں اس خصوصی رمضان ریلیف پیکج کا حجم بڑھاکر ساڑھے بارہ ارب روپے کردیا گیا تھا۔ اس بار سیل ٹارگٹ پینتالیس ارب روپے رکھا گیا تھا۔ اٹھائیسویں روزے تک اکتالیس ارب روپے سے زائد کی سیل ہو چکی تھی۔
کارپوریشن ذرائع کے مطابق باقی چار ارب کی سیل بھی اس لئے مشکل نہیں کہ چاند رات اور اس سے ایک روز پہلے سب سے زیادہ خریداری کی جاتی ہے۔ ملک بھر میں ایک ہزار فرنچائز کو ملاکر یوٹیلیٹی اسٹورز کی مجموعی تعداد ساڑھے پانچ ہزار ہے۔
ان ذرائع کے بقول سیل ٹارگٹ حاصل کرنے میں اس لئے بھی آسانی ہوئی کہ اس بار ماہ رمضان میں یوٹیلیٹی اسٹورز پر ماضی کی طرح اشیا کی زیادہ قلت نہیں رہی۔ زیادہ تر اشیا دستیاب تھیں۔ البتہ رمضان کے آغاز میں چند ریجن کے یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی، کھجور اور بیسن سمیت چند دیگر اشیا دستیاب نہیں تھیں۔ لیکن سپلائی بہتر کرکے بروقت اس پر قابو پالیا گیا تھا۔ یہ ایشو اس لیے پیدا ہوا تھا کہ چند اشیا کے ٹینڈر تاخیر سے ہوئے۔ اس میں چنے کی دال کا ٹینڈر شامل ہے، جو بروقت ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ کارپوریشن بیسن نہیں خریدتی بلکہ چنے کی دال خرید کر خود پسائی کراتی ہے، جس میں ٹائم لگتا ہے۔ اسی طرح کھجور کا ٹینڈر بھی تاخیر سے کھولا گیا تھا۔
دوسری جانب کوکنگ آئل اور گھی کمپینوں کو وفاقی حکومت نے بروقت سبسڈی کی رقم ادا نہیں کی تھی۔ چنانچہ کمپنیوں کی جانب سے خوردنی تیل اور گھی کی سپلائی سست تھی۔ اس تناظر میں خدشہ تھا کہ ماضی کی طرح پورے ماہ رمضان میں یوٹیلیٹی اسٹورز پر چند ضروری اشیا کی قلت رہے گی اور اس کے نتیجے میں ایک بار پھر سیل ٹارگٹ حاصل نہیں کیا جاسکے گا۔ لیکن یہ خدشات غلط ثابت ہوئے اور حکومت نے پھرتی دکھاتے ہوئے کوتاہیوں کا بروقت ازالہ کیا اور ڈیمانڈ اینڈ سپلائی بہتر کردی۔ یوں بڑی حد تک فروخت کا ہدف حاصل کرلیا گیا۔ یہ اس لئے بھی ممکن ہو پایا کہ اس بار حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ خاندانوں کیلئے غربت انڈیکس چالیس سے بڑھا کر ساٹھ پی ایم ٹی کردیا تھا۔ یوں بینیفشریز کی تعداد میں اضافہ ہوا اور سیل بھی بڑھ گئی۔
تاہم کارپوریشن یونین کے ذمہ داران اس کامیابی کا سارا سہرا حکومت اور انتظامیہ کے سر باندھنے پر تیار نہیں۔ ان کے نزدیک سیل ٹارگٹ پورا کرانے میں بنیادی رول ملازمین کا ہے۔ جنہوں نے مسلسل بارہ گھنٹے کی ڈیوٹیاں دیں اور دل لگا کر محنت کی ۔لیکن پھر بھی انہیں ان کا حق نہیں ملا۔ سیکریٹری جنرل آل پاکستان ورکرز الائنس یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن سید عارف حسین شاہ کہتے ہیں ’’عام دنوں میں یوٹیلیٹی اسٹورز کی ٹائمنگ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک ہوتی ہے۔ تاہم ماہ رمضان میں ان اوقات کار میں چار گھنٹے کا اِضافہ کردیا جاتا ہے۔
ملازمین صبح دس بجے سے رات دس بجے تک بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ لیکن انہیں اضافی چار گھنٹے کا اوور ٹائم نہیں ملتا۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں۔ ملازمین سے زیادتیوں کا سلسلہ بڑا طویل ہے۔ دو ہزار دس میں مہنگائی کے تناسب سے حکومت نے سرکاری ملازمین کیلئے دس فیصد ڈسپیریٹی الاؤنس منظور کیا تھا۔ جو دیگر سرکاری اداروں اور محکموں کے ملازمین کو تو مل گیا تھا لیکن یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ملازمین اس سے تاحال محروم ہیں۔ پھر دو ہزار اکیس میں حکومت نے ایک بار پھر سرکاری ملازمین کیلئے پچیس پرسنٹ ڈسپیریٹی الاؤنس منظور کیا۔ تاہم اس سے بھی کارپوریشن کے ملازمین اب تک محروم ہیں۔ حتیٰ کہ گزشتہ برس دو ہزار تئیس کے بجٹ میں گریڈ ایک سے سترہ تک کے سرکاری ملازمین کی جو تنخواہیں بڑھائی گئیں۔ وہ بھی کارپوریشن کے ملازمین کو نہیں دی جارہی ہیں‘‘۔
اس سارے قصے میں ملازمین کیلئے ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ فی الحال یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کو نجکاری کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ پچھلے ایک ڈیڑھ برس سے یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ آئی ایم ایف نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کی نجکاری کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ تاہم یونین کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ ان کے بقول یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کبھی حکومت پر بوجھ نہیں بنی اور یہ غریبوں کے ریلیف کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ جس سے ہزاروں لوگوں کا روزگار بھی وابستہ ہے۔ واضح رہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ملک بھر میں چودہ ہزار کے قریب ملازمین ہیں۔