جسٹس اطہر من اللہ کے جملے پر بانی پی ٹی آئی سمیت وکلا کا عدالت میں قہقہہ لگ گیا۔ فائل فوٹو
جسٹس اطہر من اللہ کے جملے پر بانی پی ٹی آئی سمیت وکلا کا عدالت میں قہقہہ لگ گیا۔ فائل فوٹو

مخصوص نشستوں کا کیس اہمیت اختیار کرگیا

امت رپورٹ:
پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ کیونکہ عدالتی اصلاحات کیلیے مجوزہ آئینی ترامیم کا تعلق اسی سے جڑا ہے۔ فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آیا تو حکومتی پلان دھرا رہ جائے گا۔ جس میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی اور چیف جسٹس کے عہدے کی مدت میں توسیع یا سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد میں اضافے کے معاملات شامل ہیں۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ کرنے سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ سُنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں اور تمام تر مخصوص نشستیں ایوان میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹ دی جائیں گی۔ اس فیصلے کو سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ تاہم مارچ میں پشاور ہائیکورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست قرار دے دیا۔ پانچ رکنی بنچ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کا سیاسی جماعتوں میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل اکیاون کے مطابق ہے۔

سنی اتحاد کونسل خواتین کی مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں۔ مقررہ وقت گرزے کے بعد مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کرائی جا سکتی۔ یہ فیصلہ سنی اتحاد کونسل کا لبادہ پہننے والی تحریک انصاف کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا۔ وہ بھی ایک ایسے کورٹ کی جانب سے، جسے پی ٹی آئی اپنا ہمدرد سمجھتی ہے۔

تحریک انصاف نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ جس کی سماعت اب ہونے جارہی ہے۔ اس کیس کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کی دو تہائی اکثریت کا انحصار ان ہی اضافی مخصوص نشستوں پر ہے۔ جو پی ٹی آئی اپنی قانونی غلطی کی وجہ سے کھو چکی ہے اور ان سیٹوں کو نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام میں تقسیم کیا جا چکا ہے۔ اب ان اضافی سیٹوں کے سبب ملنے والی دو تہائی اکثریت کو حکومت مختلف آئینی ترامیم کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

ان میں سے بعض عدالتی اصلاحات سے متعلق ہیں۔ اگرچہ اس کی باز گشت کافی دنوں سے سنائی دے رہی تھی۔ تاہم تین روز پہلے حکومتی سطح پر اس کا باقاعدہ اظہار کردیا گیا جب ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں نظر ثانی کے معاملے پر بلائے جانے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے انکشاف کیا کہ حکومت ججز کی تقرری کے طریقہ کار سے متعلق آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کرنے جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں جوڈیشل کمیشن کی ساخت بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ اس لیے اجلاس ملتوی کیا جائے۔

بعد ازاں اجلاس ملتوی کردیا گیا کہ جب حکومت ججز کی تقرری کے طریقہ کار سے متعلق ترامیم کرنے جارہی ہے تو پھر اجلاس بلانے کا مقصد باقی نہیں رہا۔ تاہم حکومت یا وزیر قانون نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ ججز کی تقرری کے موجودہ طریقہ کار کو بدلنے کے لئے کس نوعیت کی ترمیم کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق ججز کی تقرری کے معاملے میں حکومت نے پارلیمنٹ کے کردار کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ سسٹم میں ججز کی تقرری میں اگرچہ پارلیمانی کمیٹی کا رول ہے۔ لیکن یہ بہت محدود ہے۔ اس کے مقابلے میں عدلیہ اور بار کونسلز، ججز کی تعیناتی میں زیادہ رول ادا کرتی ہیں۔

حکومت کے بقول خاص طور پر انیسویں ترمیم کے بعد ججز کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کی حیثیت محض ربڑ اسٹیمپ جیسی رہ گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت آئینی ترمیم کے ذریعہ پارلیمانی کمیٹی کا رول بڑھانا چاہتی ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں ججز کی تقرری میں عدلیہ کا رول کم ہو جائے گا۔ یہ خبریں بھی پچھلے کافی عرصے سے چل رہی ہیں کہ حکومت چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں تین برس کی توسیع یا سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر پینسٹھ برس سے بڑھا کر اڑسٹھ سال کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

وزیر قانون نے بھی ان خبروں کو مسترد نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نوعیت کی تجاویز ضرور ہیں۔ لیکن اب تک انہیں ان تجاویز پر کام کرنے کی ہدایت نہیں ملی ہے۔ وزیر قانون کے اس بیان سے حکومتی ارادے واضح ہیں۔ جن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت کو دو تہائی اکثریت درکار ہے، جو فی الوقت اسے حاصل ہے۔ تاہم اگر سپریم کورٹ مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ منسوخ یا معطل کرکے پی ٹی آئی (سنی اتحاد کونسل) کے حق میں فیصلہ سنا دیتی ہے تو اضافی مخصوص سیٹیں اتحادی حکومت کے ہاتھ سے نکل جائیں گی اور وہ دو تہائی اکثریت بھی کھو دے گی۔

یوں مجوزہ آئینی ترامیم سے متعلق اس کا پلان پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے گا۔ اس کے برعکس سپریم کورٹ اگر پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو حکومت کی مجوزہ ترامیم کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔ تحریک انصاف کے لئے ایک تو اس لحاظ سے یہ بڑا دھچکا ہوگا کہ وہ اپنی مخصوص نشستوں سے تقریباً حتمی طور پر محروم ہو جائے گی۔ دوسری جانب حکومت اگر چیف جسٹس کے عہدے کی مدت تین برس کردیتی ہے تو قاضی فائز عیسیٰ مزید دو برس سے زائد عرصے تک بطور چیف جسٹس پاکستان رہ سکیں گے۔

اس سناریو کو پی ٹی آئی اور عمران خان اپنے لئے ایک بھیانک خواب سمجھتے ہیں کہ ان کے نزدیک موجودہ چیف جسٹس سے انہیں ریلیف کی توقع نہیں۔ پھر یہ کہ اس صورت میں جسٹس منیب اختر چیف جسٹس نہیں بن پائیں گے۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر جسٹس منصور علی شاہ نے یہ منصب سنبھالنا ہے۔ اس کے بعد جسٹس منیب اختر کا نمبر ہے۔ تاہم اگر چیف جسٹس کے عہدے کی مدت تین برس کردی جاتی ہے تو جسٹس منصور علی شاہ تاخیر سے ہی سہی، چیف جسٹس بن جائیں گے۔ لیکن اس عرصے کے دوران جسٹس منیب اختر ریٹائر ہوچکے ہوں گے۔ یہ سب کچھ بھی پی ٹی آئی کے لئے نیک شگون نہیں۔

کیونکہ جن ججز کے بارے میں پی ٹی آئی کے ہمدرد ہونے کا تاثر پایا جاتا تھا۔ ان میں جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔ جبکہ دیگر دو، جسٹس اعجازالحسن استعفیٰ دے چکے ہیں اور مظاہر علی نقوی کو کرپشن پر برطرف کردیا گیا تھا۔ اب دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے؟ تحریک انصاف اور حکومت دونوں کی نظریں عدالت عظمیٰ پر لگی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔