عمران خان :
سرکاری اداروں میں کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کے حوالے سے ایف آئی اے میں زیر تفتیش ہزاروں انکوائریوں پر کام ٹھپ ہوگیا۔ وفاقی ادارے کے حکام وزرا، اراکین اسمبلی اور مشیروں کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ تفتیشی افسران اپنے ہی انکوائریز اینڈ انویسٹی گیشن رولز پر عملدرآمد نہیں کر رہے۔ جبکہ ہیڈ کوارٹرز سمیت زونل حکام طے شدہ وقت میں تسلسل سے بورڈز میٹنگ کرکے ویری فیکیشنز کو انکوائریز اور انہیں مقدمات میں تبدیل کرنے کی منظوریاں دینے یا پھر ان کو ڈسپوز آف کرنے میں تاخیر کر رہے ہیں۔ اسی سبب سینکڑوں مقدمات کے چالان جمع کرانے میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق سرکاری محکموں میں کرپشن اور بدعنوانیوں کے حوالے سے افسران اور حکام کے خلاف ملنے والی شکایات پر ویری فیکیشن اور انکوائریوں کے چکر میں کئی کئی سال ضائع ہوتے رہے ہیں۔ پی آئی اے، سول ایوی ایشن، اسٹیٹ بینک، نیشنل بینک، کسٹم، ایف بی آر، کے پی ٹی، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، ٹی سی پی، پی ٹی اے، پوسٹ آفس، یوٹیلٹی اسٹورز ڈپارٹمنٹ، نیشنل شپنگ ڈپارٹمنٹ، کورنٹائن، پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ، اسٹیٹ لائف، نیشنل انشورنس سمیت کئی دیگر وفاقی اداروں میں کرپشن اور بدعنوانیوں پر دی جانے والی درخواستوں اور خفیہ اطلاعات پر اس وقت ایف آئی اے کے تمام ہی سرکلز میں ہزاروں انکوائریاں التوا کا شکار ہیں۔
اسی وجہ سے 2020ء کے آغاز میں ایف آئی اے انکوائریز اینڈ انویسٹی گیشن رولز کے ترمیمی مسودہ نمبر 05/2020 سندھ، پنجاب، بلوچستان، اسلام آباد، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ کے 11 ڈائریکٹرز کو جاری کیا گیا۔اس میں ایف آئی اے انکوائریز اینڈ انویسٹی گیشن پروسیجر میں کی گئی ترامیم کے مطابق سرکاری اداروں میں کرپشن کے حوالے سے موصول ہونے والی سرکاری حکام کی تحریری درخواستوں پر لمبی چوڑی انکوائری کے بجائے براہ راست مقدمہ درج کرنے کی ایس او پی بنائی گئی۔ تاہم سرکاری اداروں میں شہریوں کی جانب سے دی گئی درخواستوں پر بھی تحقیقات مکمل کرنے کیلئے تفتیشی افسران کو ایک مخصوص وقت دیا گیا۔ تاکہ متاثرین کو بروقت انصاف فراہم کرکے کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کو یقینی بنایا جاسکے۔
اسی مسودہ کے مطابق ایف آئی اے ٹیم کے افسران اور اہلکاروں کی چھاپوں سے قبل جامع تلاشی لینے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ تاکہ ایف آئی اے افسران کسی شخص کے جیب میں خود سامان یا پیسے ڈال کر کرپشن کے جھوٹے کیس نہ بناسکیں۔ تاہم اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک بھر کے سرکلز میں تعینات ایف آئی اے افسران وقتی اور فوری طور پر حکام کی جانب سے موصول ہونے والے ٹاسک نمٹا رہے ہیں۔ جبکہ تمام ہی سرکاری اداروں کے حوالے سے موجود کرپشن کیسز پر تفتیش کا کام عملی طور پر معطل ہوکر رہ گیا ہے۔ دوسری جانب ایف آئی اے اعلیٰ حکام بھی ان امور پر بالکل توجہ نہیں دے رہے۔ جس کیلئے اس وفاقی ادارے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس کے بجائے حکام اپنی کرسیاں مضبوط بنانے کیلئے حکومتی افراد کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ جس کی وجہ سے سرکاری اداروں میں کرپشن پر سزا کا عمل معطل ہوچکا ہے۔
ایف آئی اے کے انکوائریز اینڈ انویسٹی گیشن رولز کے مطابق ملک بھر میں ایف آئی اے افسران کو عوامی شکایات کے جلد ازالے کیلئے ویری فیکیشن کے عمل کو ایک ہفتے میں نمٹانے اور انکوائری کے مرحلے کو 3 ماہ میں نمٹانے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ تاہم اگر سرکل انچارج 18 گریڈ سے کم ہوگا تو وہ اپنے سرکل میں موصول ہونے والی کمپلین پر ویری فیکیشن رجسٹرڈ کرکے افسر متعین کرنے یا ویری فیکیشن کلوز کرنے کے اس اختیار کا استعمال نہیں کرسکتا۔ اس کیلئے متعلقہ زونل ڈائریکٹرز ہی مجاز ہوگا۔ اور نہ ہی 18گریڈ سے کم کا سرکل انچارج اپنے سرکل میں انکوائری رجسٹرڈ کرسکتا ہے۔ رولز کے مطابق ایف آئی اے کے آن لائن ڈیٹا سسٹم (سی ایم ایس) کو ادارے کے نظام میں کلیدی اور اہم کردار کا حامل بنایا گیا۔
ایف آئی اے کو ملک بھر میں موصول ہونے والی تمام درخواستوں کا ریکارڈ سب سے پہلے اس سسٹم میں درخواست گزار کے شناختی کارڈ اور دیگر ضروری کوائف کے ساتھ فیڈ کرنے کو لازمی قرار دیا گیا۔ اسی طرح سرکلز میں جاری انکوائریوں اور کیسز کی ہر پیش رفت، خط و کتابت، ریکارڈ کی موصولی، دستیابی و عدم ستیابی کے عمل کو بھی سی ایم ایس میں فیڈ کرنا لازمی قرار دیا گیا۔ ادارے میں زیر التوا انکوائریوں کو جلد نمٹانے کیلئے انکوائریوں پر پہلے 90 دن اینٹی کرپشن کے خصوصی سرکلز اور 45 دن اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل اور سائبر کرائم سرکل کیلئے 45 دن دیئے گئے۔ تاہم اگر انکوائری افسر اس مدت میں انکوائری پر تحقیقات مکمل نہ کرسکے تو اسے ٹھوس وجوہات پیش کرنے پر زونل ڈائریکٹرز مزید 90 دن اور 45 دن کا وقت دے سکتا ہے۔ تاہم اس کے بعد اگر تیسری بار پھر تفتیشی افسر کو وقت کی ضرورت ہوگی تو اس کا کیس متعلقہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کو بھیجا جائے گا۔
تفتیشی افسر کو 270 دنوں کے بعد بھی اگر وقت چاہیے ہو تو اس کا کیس منظوری کیلئے ڈائریکٹر جنرل کو پیش کیا جاتا ہے۔ انکوائریز میں ثبوت و شواہد سامنے آنے پر کیسز کی منظوری دینے کیلئے زونل ڈائریکٹر، ڈی ڈی لائ، انچارج سرکل اور سرکل لا آفیسر پر مشتمل بورڈ فیصلہ دیتا ہے۔ کیسز میں چالان پیش کرنے کی منظوری بھی زونل ڈائریکٹرز ہی دیں گے۔ جبکہ 20 گریڈ کے حاضر سروس افسر کیخلاف کرپشن کی انکوائری میں اگر گرفتاری لازمی ہو تو اس کی منظوری متعلقہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سے لی جاتی ہے اور اس کی اطلاع گرفتاری کے 24 گھنٹے کے اندر مذکورہ گرفتار افسر کے ادارے کو دینا لازمی ہوتی ہے۔
انکوائریز اینڈ انویسٹی گیشن رولز کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں کرپشن اور بدعنوانیوں کی انکوائریز اور کیسز کی تفتیش میں سرکاری محکموں کے حاضر افسران میں سے 20 گریڈ سے کم افسران کی گرفتاری کا اختیار ماتحت افسران کو ہی دے دیا گیا ہے۔ جبکہ ریٹائرڈ افسران چاہے وہ 20 یا 22 گریڈ کا بھی ہو۔ اس کی گرفتاری کیلئے اعلیٰ حکام سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور اگر سرکاری اداروں میں کرپشن اور بدعنوانیوں کے حوالے سے درخواست سرکاری محکموں یا کابینہ اور قائمہ کمیٹی وغیرہ کی جانب سے دی جائے تو اس پر ویری فیکیشن یا انکوائری کے عمل کی ضروت نہیں سمجھی جاتی۔ اس پر ایف آئی اے افسران براہ راست کیس رجسٹرڈ کرسکتے ہیں۔