محمد علی:
افغانستان میں سیاحت کے فروغ کی کوششوں کو زبردست دھچکا پہنچا ہے۔ مشہور سیاحتی مقام بامیان میں دہشت گردوں نے غیر ملکی سیاحوں کے گروپ پر فائر کھول دیا۔ جس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 6 ہو گئی ہے۔ مارے جانے والوں میں 3 ہسپانوی اور 3 مقامی گائیڈز شامل ہیں جبکہ ہسپانوی سیاح زخمی بھی ہے۔
اسپین کی حکومت اور یورپی یونین نے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بامیان واقعے نے افغانستان میں سیاحت کے فروغ اور سیاحوں کی تعداد میں ہر سال اضافے کے ویژن کو کاری ضرب لگائی ہے۔ کیونکہ غیر ملکی سیاحوں کا گروپ طالبان حکومت کی نگرانی میں بامیان کا دورہ کر رہا تھا۔ وفد میں آسٹریلیا، ناروے، اسپین اور لتھوانیا کے سیاح شامل تھے۔ جو اطلاعات کے مطابق افغانستان چھوڑ کے جا چکے ہیں۔
واضح رہے کہ طالبان حکومت ملک کو سیاحت کا پاور ہاؤس بنانا چاہتی ہے۔ اور اس عزم کا اظہار رواں ماہ کے اوائل میں ہی ایک افغان وزیر نے کیا تھا۔ لیکن دہشت گردوں نے اس پر پانی پھر دیا۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی ہے۔ جمعہ کے روز جس وقت غیر ملکی سیاحوں کے گروپ پر حملہ کیا گیا۔ اس وقت وہ مقامی مارکیٹ میں پھل خرید رہے تھے۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس افغانستان میں سیاحوں کی آمد میں 120 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ طالبان حکومت ملک میں سیاحت کے فروغ کیلئے گائیڈز کو ٹریننگ بھی فراہم کر رہی ہے۔ دارالحکومت کابل کے ایک کلاس روم میں تقریباً 30 طلبہ طالبان کے زیر انتظام چلنے والے انسٹی ٹیوٹ میں سیاحت اور مہمان نوازی کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کر رہے ہیں۔2021ء میں صرف 691 غیر ملکی سیاحوں نے افغانستان کا رخ کیا تھا۔ 2022ء میں یہ تعداد 2 ہزار 300 کے قریب تھی۔
جبکہ گزشتہ برس تقریباً 7 ہزار غیر ملکی سیاح افغانستان آئے۔ کابل میں ٹور ازم ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ محمد سعید کے مطابق جغرافیائی قربت اور بڑی آبادی کی وجہ سے افغانستان کیلئے غیر ملکی سیاحوں کی سب سے بڑی منڈی چین ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کو اپنے بعض پڑوسیوں پر بھی برتری حاصل ہے۔
واضح رہے کہ عالمی سطح پر افغانستان تنہائی کا شکار ہے اور ایسا زیادہ تر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی وجہ سے ہے۔ اس ملک کی معیشت بحران کا شکار ہے۔ بنیادی ڈھانچہ ناقص ہے۔ لیکن اس ملک میں ایک تبدیلی آئی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ پرتشدد واقعات میں کمی اور دبئی جیسے ایئرپورٹس کے ساتھ رابطوں میں اضافے کی وجہ سے غیرملکی سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دارالحکومت کابل میں سب سے زیادہ بین الاقوامی پروازیں اترتی ہیں۔ لیکن کسی بھی افغان ہوائی اڈے پر چین، یورپ یا انڈیا جیسی بڑی سیاحتی مارکیٹوں کے ساتھ براہ راست راستے نہیں ہیں۔
مسائل کے باوجود محمد سعید چاہتے ہیں کہ افغانستان سیاحت کا ایک پاور ہاؤس بن جائے۔ یہ ایک ایسا عزم ہے۔ جسے بظاہر طالبان کے سرکردہ رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔ ٹورازم ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ محمد سعید نے اعتراف کیا کہ افغان سیاحت کی ترقی میں رکاوٹیں ہیں۔ لیکن وہ ان پر قابو پانے کیلیے مختلف وزارتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
ان کا حتمی مقصد یہ ہے کہ سیاحوں کیلئے آمد پر ویزہ متعارف کروایا جائے۔ لیکن اس میں ابھی برسوں لگ سکتے ہیں۔ افغانستان میں سڑکوں کا نیٹ ورک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور زیادہ تر ایئرلائنز ابھی تک افغان حدود استعمال کرنے سے گریزاں ہیں۔ سب سے زیادہ بین الاقوامی پروازیں دارالحکومت کابل میں آتی ہیں۔ لیکن کسی بھی افغان ہوائی اڈے کا چین، یورپ یا بھارت جیسی بڑی سیاحتی منڈیوں کے ساتھ براہ راست روٹ موجود نہیں ۔