عمران خان :
کراچی میں کاروں اور دیگر سامان کی خرید و فروخت کے نام پر شہریوں سے او ایل ایکس پر جھانسے سمیت دیگر طریقوں سے 20 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے آن لائن فراڈ کرنے والا سب سے بڑا گروپ جیل میں بنایا گیا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ مذکورہ گروپ کے کارندوں نے شہریوں کو جعلی پے آرڈر دینے سمیت کئی قسم کے آن لائن فراڈ کیے۔
گروپ کے کارندے گزشتہ ایک دہائی میں 4 بار گرفتار ہوئے۔ تاہم عدالتوں سے ضمانتوں کے بعد دوبارہ وارداتوں کا سلسلہ شروع کردیتے۔ تحقیقات میں ایسے شواہد بھی ملے کہ ملزمان کو بڑی کارساز کمپنیوں کے آفیشل ڈیلروں کے شورومز سے نئی گاڑیاں خریدنے والوں کے حوالے سے اہم معلومات ملا کرتی تھیں ۔
ذرائع سے موصول معلومات کے مطابق اس گروپ کے حوالے سے تفصیلی تحقیقات اس وقت شروع ہوئیں جب اس کے اہم کارندے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی اور رینجرز کے ہاتھوں پکڑے گئے۔ اس سے قبل ملزمان تھانوں کی پولیس کے ہتھے چڑھتے رہے اور معمولی ملزمان کی حیثیت سے ہلکے کیسوں میں آسانی سے ضمانت پر باہر آتے رہے۔ کچھ عرصہ قبل ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کراچی کی ٹیم نے ایک شہری کی درخواست پر تحقیقات کرتے ہوئے گروپ کے اہم کارندے اعظم بٹ کو اس کے اکائونٹ نمبر سے ٹریس کرکے گرفتار کیا۔
شہری نے درخواست میں بتایا کہ اس کو قیمتی کاریں انڈس موٹرز کمپنی کے بن قاسم اسٹور سے نکلواکر دینے کا جھانسا دے کر اس گروپ نے ایک کروڑ 20 لاکھ روپے بٹورے۔ جس کے لئے اسے کمپنی کے بن قاسم آفس میں لے کر نیلامی کے لئے آئی ہوئی قیمتی کاریں بھی دکھائی گئیں۔ تاہم اس کے بعد ملزمان رابطے سے غائب ہوگئے۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ملزم اعظم بٹ اس جعلساز گروپ کا اہم کارندہ ہے جو اس سے قبل 2016ء شہریوں کے ساتھ 2 کروڑ روپے مالیت کا فراڈ کرنے پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ اس کیس میں اعظم بٹ کو دو سال کی سزا اور 30 لاکھ روپے جرمانہ بھی ہوا۔
اس وقت جیل میں اعظم بٹ اور دیگر ملزمان ایک ہی کھولی میں قید تھے۔ یہ ملزمان اسٹریٹ کرائم، چوری و ڈکیتی وغیرہ کے کیسوں میں بند تھے۔ یہاں پر ان کے درمیان دوستی ہوئی اور انہوں نے ایک نئے منظم گروپ کی بنیاد رکھی اور مستقبل کی وارداتوں کے لئے منصوبہ بندی شروع کردی۔ بعد ازاں سزا مکمل کرنے کے بعد یہ گروہ دوبارہ سرگرم ہوا۔ 2018ء میں جیل سے آنے کے بعد اس گروہ نے دوبارہ وارداتیں شروع کیں۔
2019ء میں رینجرز اور ایف آئی اے نے ایک مشترکہ کارروائی میں آن لائن فراڈ میں ملوث 10 رکنی گروپ کے تمام اراکین کو گرفتار کیا۔ جنہیں مقدمہ کے اندراج اور مزید تفتیش کے لئے ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کراچی کے حوالے کیا گیا۔ ملزمان کے خلاف آن لائن فراڈ پر سائبر کرائم ایکٹ کے تحت 2019ء کی پہلی ایف آئی آر درج کی گئی۔ گرفتار ملزمان میں سرغنہ اعظم بٹ، نذرل قادر، شاہ میر، کامران، ابراہیم نفیس، علی عاطف، عرفان بشیر، منیر خان، فیضان رفیع اور نوید مرزا شامل تھے۔ کارروائی کے وقت ملزمان سے 28 موبائل فون اور 4 لیپ ٹاپ کے علاوہ دیگر آلات اور دستاویزات ملیں۔ تاہم اس بار بھی ملزمان چھ ماہ بعد ضمانت پر باہر آگئے۔
ملزمان نے تفتیش میں انکشاف کیا کہ وارداتوں کی منصوبہ بندی کرنے کے لئے وہ ہر اتوار کو موقر جریدوں کا تفصیلی مطالعہ کرتے تھے۔ کیونکہ اتوار کے اخباروں میں بڑے بینک اور معروف کمپنیاں کاروں کی نیلامی کے لئے اشتہارات دیتی ہیں۔ ان اشتہاروں کو اپنے پاس محفوظ کرنے کے بعد اس گروپ کے اراکین پہلے خود اشتہاروں میں دئے گئے پتوں پر جاتے تھے۔ خود کو خریدار ظاہر کرکے نیلامی میں شرکت کرنے اور گاڑیاں خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرکے نہ صرف بکنے والی کاروں کی تمام معلومات جمع کرلیتے تھے۔ بلکہ ان کی تصاویر بھی بنالیتے تھے۔ اس کے بعد یہ تصاویر اسی معلومات کے ساتھ اشتہار کی صورت میں او ایل ایکس نامی ویب سائٹ پر جاری کردیتے تھے۔
رابطہ کے لئے ایک موبائل نمبر دیتے تھے۔ کاروں کو خریدنے میں دلچسپی رکھنے والے شہری اشتہارات دیکھنے کے بعد جب دئے گئے موبائل نمبر پر رابطہ کرتے تو یہ پڑھے لکھے ملزمان انتہائی مہذب انداز میں شہریوں سے ڈیلنگ کرتے تھے۔ اور خود کو بینک اور معروف کمپنیوں کے منیجر اور ڈیلنگ آفیسر ظاہر کرتے تھے۔ ملزمان شہریوں کو لالچ دینے کے لئے اور خریداری پر اکسانے کے لئے انہیں کم سے کم میں گاڑی فروخت کرنے کی پیشکش کرتے تھے۔ تاہم اس کے لئے یہ شرط رکھی جاتی تھی کہ وہ خریداری کے لئے صرف انہی سے بات کریں گے اور ادائیگی بھی انہی کو کریں گے۔
ملزمان نے تفتیش میں مزید بتایا کہ جب ان سے رابطہ کرنے والے شہری گاڑیاں دیکھنے کی فرمائش کرتے تھے تو وہ انہیں مذکورہ بینک یا کمپنی کا وہ ایڈریس دے دیتے تھے، جہاں پر نیلامی کے لئے گاڑیاں موجود ہوتی تھیں۔ تاہم ساتھ ہی تاکید کرتے تھے کہ وہ صرف خاموشی سے گاڑیاں دیکھ کراپنی تسلی کر آئیں۔ لیکن اسٹاف سے کوئی بات چیت نہ کریں ورنہ انہیں بینک یا کمپنی کے مقررکردہ نرخوں پر بھی گاڑیاں ملیں گی۔ لیکن اگر وہ خاموشی سے گاڑیاں دیکھ کر واپس آجائیں گے تو انہیں نیلامی میں ان سستے داموں گاڑیاں مل سکتی ہیں۔ چونکہ ملزمان خود کو انہی بینکوں اور کمپنیوں کے آفیسر ظاہر کرتے تھے۔ اس لئے جب شہری دئے گئے پتوں پر جا کر گاڑیاں دیکھتے تھے تو انہیں ای اویل ایکس پر دئے گئے اشتہارات کے عین مطابق گاڑیاں مل جاتی تھیں جن کے نمبر پلیٹ اوردیگر کوائف بھی وہی ہوتے تھے جو ملزمان اپنے اشتہار میں فراہم کرتے تھے۔
اس لئے ایک دو لاکھ روپے کم قیمت میں گاڑیاں خریدنے کی لالچ میں آکر یہ شہری گاڑیاں دیکھنے کے بعد تسلی ہونے پر دوبارہ ملزمان سے رابطہ کرکے ان کے بتائے ہوئے بینک اکائونٹس میں پہلے ایڈوانس کی رقم ٹرانسفر کردیتے تھے۔ اس کے بعد پوری ادائیگی بھی کردیتے تھے تاکہ خاموشی سے سیٹنگ بنا کر کم قیمت میں گاڑی نکلوائی جاسکے۔ تاہم جب شہری رقم ادا کردیتے تھے تو یہ ملزمان اپنے دئے گئے موبائل نمبرز بند کر کے غائب ہوجاتے تھے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق تحقیقات میںانکشاف ہوا کہ اس گروپ کے کارندوں نے او ایل ایکس پر باقاعدہ نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔ گروہ میں کال سینٹر کی خواتین ایجنٹ بھی رکھی گئیں ۔ تاکہ لوگوں کو آسانی سے بیوقوف بنایا جا سکے۔
ایف آئی اے نے ملزمان سے تحقیقات میں ایسے 5 بینک اکائونٹس کا ڈیٹا حاصل کیا جن کے ذریعے ملزمان شہریوں سے رقوم وصول کررہے تھے۔ ان کائونٹس کو ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کی جانب سے منجمد کرایا گیا۔ تفتیش میں معلوم ہوا کہ یہ تمام بینک اکائونٹس ایسے سادہ لوح اور غریب شہریوں سے کھلوائے گئے جن کے پاس دو وقت کے کھانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ تاہم ان شہریوں کو 10ہزار سے 15ہزار روپے کی لالچ دے کر ان کے ناموں پر یہ کہہ کر بینک اکائونٹ کھلوائے گئے کہ ان کے اکائونٹس میں کمپنی کے پیسے آئیں گے جس میں سے انہیں بھی حصہ ملے گا۔