نواز طاہر:
حکمران اتحاد، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کے باوجود پنجاب میں صورتحال اس ہم آہنگی کے برعکس پیدا ہوگئی ہے جہاں ایک جماعت کی وزیر اعلیٰ اور دوسری جماعت کے گورنر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئینی طاقت کے ہتھیار لئے صفِ آرا ہیں۔ اس’ جنگ‘ میں حمایت کی ’کمک‘ حاصل کرنے کیلئے گورنر پنجاب کی طرف سے اپنی جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے رابطہ کیا جارہا ہے۔
گورنر اور وزیراعلیٰ پنجاب کے اس اختلافِ رائے کو پارٹی کے کچھ حلقوں میں انتہائی سنجیدہ لیا جانے لگا ہے اور گورنر کی طرف سے مسلم لیگ ن کے ساتھ سیاسی معاملات پر نظر ثانی یا پھر کسی مرحلے پر پنجاب میں الگ ہونے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ لیکن واضح موقف سے پہلے پارٹی کے رہنما پارٹی ہائی کمان کے فیصلے پہلے تبصرہ کرنے سے گریزاں ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین پنجاب میں شراکتِ اقتدار کے فارمولے کے تحت ایوان وزیراعلیٰ میں پیپلز پارٹی پنجاب کے پارلیمانی لیڈر کو ایک دفتر اور ایک ایڈیشنل سیکریٹری سمیت سرکاری عملہ فراہم کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی طرف سے مسلم لیگ ن کے بارے میں شکایات اور بیانات جاری رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سردار سلیم حیدر کو خاں گورنر بنائے جانے کے بعد کچھ عرصے کے لئے ان شکوئوں میں تعطل آیا اور پنجاب میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے تقرر کے معاملے پر شکایات اختلافات کی صورت میں سامنے آنا شروع ہوئیں تو یہ دو آئینی عہدوں وزیراعلیٰ و گورنر میں اختلافات شدت اختیارات کرگئے اور اب یہ معاملہ مرکزی قیادت کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ وائس چانسلروں کے تقرر کے معاملے پر مبینہ طور پر فی کس دو کروڑ روپے کا معاملہ سامنے آیا تھا اور نجی محفلوں میں طرفین کی طرف سے ایک دوسرے پر یہ رقم لینے کے الزامات دہرائے جاتے رہے ہیں لیکن کھلے عام نام لینے سے گریز کیا گیا جس پر گورنر پنجاب نے ایک روز قبل پیپلز پارٹی کے رہنمائوں اسلم گل اور میاں عزیزالرحمان چن کے ساتھ گورنر ہائوس میں پریس کانفرنس میں ان الزامات کی تردید کی۔ ساتھ ہی میرٹ پر تقرر پر بھی زور دیا اور یہ کہا کہ دونوں جماعتوں کی اتحادی کِشتی چلتی رہنا چاہیئے۔ لیکن اگلے روز ہی گورنر کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ اپنی قیادت سے بات کریں گے کہ پنجاب میں حکومت سے باہر آجائیں اور اپوزیشن میں بیٹھنے کا کڑوا گھونٹ پی لیں۔
اس ضمن میں گورنر ہائوس کی ترجمان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گورنر کے حوالے سے اپنی قیادت کو آگاہ کرنے کے بارے میں خبر درست ہے۔ اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک صوبائی تنظیم نے گورنر کے بیان کی روشنی میں کوئی باقاعدہ مشاورت نہیں کی اور نہ ہی کوئی رائے قائم کی ہے۔ بلکہ گورنر کی طرف سے پارٹی چیئرمین کو آگاہ کیے جانے اور اس پر ملنے والے جواب کے بعد ہی پارٹی کوئی لائحہ عمل بنائے گی یا رائے کا اظہار کرے گی۔
تاہم ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ صوبے میں میرٹ کی تقرریوں کا ہے۔ اگر مسلم لیگ ن اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی یعنی میاں مرغوب احمد کو ایک ادارے کا وائس چیئرمین مقرر کرسکتی ہے تو اسی اصول اور میرٹ پر پیپلز پارٹی کو بھی حصہ ملنا چاہیے جو کہ نہیں مل رہا بلکہ حکومت پیپلز پارٹی کو اکاموڈیٹ ہی نہیں کررہی ، یہاں تک کہ کچے کے علاقے سے منتخب ہونے والے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی ممتاز چانگ کو کچے کے حوالے سے معاملات پر گفتگو کرنے کیلئے بھی وزیراعلیٰ نے بار بار باور کروائے جانے کے باوجود وقت نہیں دیا۔
ان ذرائع کے مطابق مجموعی طور پر پیپلز پارٹی پنجاب میں اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ حکومتی اتحاد میں رہنے سے اپوزیشن میں رہنا بہتر ہے اور وہ پارٹی کی جانب سے بھی یہی توقع کررہی ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ خاص طور پر ایسے پی پی رہنما مسائل کا شکار ہیں جو صدرِ مملکت کے قریب ترین تصور کیے جاتے ہیں۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی ہی کے کچھ اہم ذرائع کا خیال ہے کہ گورنر کو طرف سے بلاول بھٹو کو آگاہ کیے جانے کے بعد بھی حسبِ خواہش موجودہ صورتحال میں کوئی ایسا رسپانس ملنے کا امکان کم ہے جو پیپلز پارٹی پنجاب توقع کررہی ہے۔ ان اختلافات اور ان کے نتیجے میں ممکنہ صورتحال پر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما تبصرے سے گریزاں ہیں۔ دوسری جانب شہری اور سیاسی حلقوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی حلقوں میں ان اختلافات کو بنیادی طور پر دو آئنی عہدوں کے درمیان میرٹ کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے اور من مانی کرنے سے تعبیر کررہے ہیں اور سیاسی کی بجائے مالی مفادات کا جھگڑا قراردے رہے ہیں۔