سجاد عباسی :
عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پاکستان میں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ والہانہ استقبال پر بھارتی میڈیا بلبلا اٹھا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک دو روز قبل 30 ستمبر کو کم و بیش ایک ماہ کے دورے پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے ہیں۔وہ حکومت پاکستان کی خصوصی دعوت پر آئے ہیں۔ یعنی انہیں سرکاری مہمان کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام رانا مشہود نے سرکاری مہمان کا استقبال کیا جن کے ہمراہ نواز لیگ کے رہنما سردار محسن عباسی اور ان کے بھائی مستحصم عباسی بھی موجود تھے جو ڈاکٹر نائیک کے چینل ’’پیس ٹی وی‘‘ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔
ایئرپورٹ سے انہیں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ وفاقی دارالحکومت لے جایا گیا جہاں انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سمیت دیگر اہم حکومتی شخصیات سے ملاقات کے علاوہ میڈیا کے سینئر نمائندوں سے بھی بات چیت کی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پاکستان میں والہانہ استقبال اور سرکاری پروٹوکول پر بھارتی میڈیا کی تکلیف دیدنی ہے۔ بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی نے سرخی جمائی ہے ’’پاکستان نے مفرور اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لیے ریڈ کارپٹ بچھا دیئے‘‘۔ جبکہ ہندوستان ٹائمز نے ڈاکٹر نائیک کے استقبال کی ویڈیو کے ساتھ کیپشن لکھا۔ ’’بھارت کو انتہائی مطلوب شخص کا پاکستان میں والہانہ استقبال‘‘۔ اس کے ساتھ بھارتی اخبار نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر نائیک کو بھارت میں نفرت انگیز تقاریر اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ 2016ء میں ملائشیا منتقل ہو گئے تھے۔
18 اکتوبر 1965 کو بھارتی شہر ممبئی میں پیدا ہونے والے 58 سالہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے بے کراں علم، غیر معمولی حافظے اور سحر انگیز خطابت کے باعث عالمی شہرت رکھتے ہیں اور تقابل ادیان پر ان کی گرفت ناقابل بیان ہے۔ ڈاکٹر نائیک کی تبلیغ سے متاثر ہو کر لاکھوں غیر مسلم افراد اسلام قبول کر چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد ہندوؤں کی بھی ہے اور ڈاکٹر نائیک کی یہی خوبی بھارتی حکمرانوں اور اشرافیہ کی نگاہ میں خامی کا درجہ رکھتی ہے جو بالخصوص مودی حکومت کے دور میں جرم بن گئی اور یکم جولائی 2016ء کے ایک بم دھماکے کو بنیاد بنا کر بھارتی حکومت نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا بھارت میں قیام ناممکن بنا دیا۔ بہانہ یہ تھا کہ دھماکے میں ملوث ایک دہشت گرد سوشل میڈیا پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو فالو کرتا تھا۔
مودی میڈیا نے اس خبر کی بنیاد پر بھرپور پروپیگنڈا کیا اور ڈاکٹر نائیک کا دہشت گردی سے تعلق جوڑنے کی بھرپور کوشش کی۔ حالانکہ ٹھیک ایک ماہ بعد دو اگست 2016ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ ڈاکٹر نائیک کے خلاف الزامات کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور وہ کسی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں۔ اس کے باوجود چند ماہ بعد منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت ڈاکٹر نائیک کی تنظیم ’’اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ پر اس وقت پابندی لگا دی گئی جب وہ عمرے کے لیے حجاز مقدس میں موجود تھے۔ صرف یہی نہیں، ڈاکٹر ذاکر نائیک کے چینل ’’پیس ٹی وی‘‘ پر بھارت کے ساتھ ساتھ حکومتی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی پابندی لگوائی گئی۔ بعد ازاں ڈاکٹر ذاکر نائیک ملائشیا منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے مستقل سکونت اختیار کر لی۔ ڈاکٹر نائیک کے مطابق بھارت بدری کے بعد ان کے پاس 15 مختلف ممالک سے شہریت کی پیشکش موجود تھی، مگر انہوں نے ملائشیا کا انتخاب چند خاص وجوہات کی بنا پر کیا۔
اول یہ کہ ملائشیا کسی بیرونی ملک کا اثر نہیں لیتا، نہ کسی دباؤ میں آتا ہے۔ دوئم ملائشیا مڈل ایسٹ کے وار زون میں شامل نہیں ہے۔ لہذا عمومی تنازعات سے دور ہے۔ نمبر تین اسلام وہاں کا وفاقی مذہب ہے اور اسلام ہی اس کا ووٹ بینک ہے۔ جبکہ عام طور پر دوسرے ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں کا طرز رہائش سادہ اور قناعت پر مبنی ہے۔ ملائشیا اسلامک بینکنگ میں سعودی عرب کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جبکہ حلال سرٹیفیکیشن میں نمبر ون ہے۔ ملائشیا کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہاں زکواۃ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور ایک شہری جتنی رقم زکواۃ کی مد میں دیتا ہے وہ اس کے ٹیکس سے منہا ہو جاتی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملائشیا میں قیام کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک پہلے سے زیادہ موثر انداز میں تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور عالمی سطح پر ان کی رسائی مزید آسان ہوگئی ہے۔
دوسری طرف بھارتی حکومت جو پہلے دن سے ہی انہیں پابندیوں میں جکڑنے کے لیے بے تاب تھی، ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ملائشیا سے واپس لانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکی ہے۔ مگر اسے مسلسل رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈاکٹر نائیک کے مطابق مودی حکومت نے 2017ء میں دہشت گردی کے الزام کے تحت انٹرپول کے ذریعے ان کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی جو مسترد کر دی گئی۔ دو برس بعد 2019ء میں ایک بار پھر نفرت انگیز تقاریر (hate speech) کا الزام لگا کر انٹرپول سے رابطہ کیا گیا۔ مگر عالمی ادارے نے پھر یہ درخواست مودی حکومت کے منہ پر دے ماری۔ پھر 2021ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو منی لانڈرنگ کے الزام کے تحت انٹرپول کے ذریعے واپس لانے کی کوشش کی گئی۔ مگر جواباً انہیں بتایا گیا کہ تحقیقات کے دوران ان کا یہ الزام بھی من گھڑت اور بے بنیاد ثابت ہوا ہے، لہذا درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اس سے پہلے 1992ء میں پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں جہاں بھارت واپسی سے پہلے انہوں نے معروف عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد سے ملاقات کی تھی جن کی فکر سے وہ متاثر بھی ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک 28 اکتوبر تک پاکستان میں قیام کریں گے۔ اس دوران سرکاری مہمان کے طور پر انہیں فول پروف سیکورٹی اور پروٹوکول حاصل ہوگا۔ شیڈول کے مطابق اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں ڈاکٹر نائیک آج بدھ کی صبح 10 روزہ دورے پر کراچی پہنچیں گے جہاں ان کے لیے سخت سیکورٹی انتظامات کیے گئے ہیں اور ان کی سیکورٹی ایس ایس یو کے حوالے کر دی گئی ہے۔ کراچی میں قیام کے دوران ڈاکٹر نائیک کی نامور علمائے دین مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمان اور مفتی عبدالرحیم کے علاوہ سندھ کے سینیئر حکام کے ساتھ ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔ چار اکتوبر کو ڈاکٹر ذاکر نائیک اہم سرکاری ادارے کے دورے کے بعد اگلے روز مزار قائد پر تقریب سے خطاب کریں گے۔ سات سے دس اکتوبر کے دوران ان کی کراچی میں نجی ملاقاتیں طے ہیں جس کے بعد 11 اکتوبر کی صبح وہ کراچی سے لاہور روانہ ہو جائیں گے۔