محمد قاسم :
کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ نے جرگہ مشران کو 10 تجاویز پیش کردیں۔ جس میں تجارت کی بحالی، بجلی کی قیمت فی یونٹ پانچ روپے کرنے اور معدنیات کی کانیں بند کرنا شامل ہے۔ جبکہ جرگہ افغان حکومت سے اپیل کرے کہ وہاں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔ تجاویز میں طالبان کو دہشت گرد قرار دینا بھی شامل ہے۔ جبکہ ملی لشکر کی تشکیل کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ جرگہ ایک بڑے جرگے کا اعلان کرے۔ یہ جرگہ اعلان کرے کہ آج کے بعد پشتون کسی کو بھی بھتہ نہیں دیں گے۔ مختلف علاقوں میں لوگ انگریزوں کے طرز پر جرگے کر رہے ہیں۔ یہ جرگہ ایک ملی لشکر بنائے۔ ہر ضلع سے تیس ہزار لوگ ملی لشکر میں شامل کیے جائیں۔ جس سے دو لاکھ چوالیس ہزار افراد کا لشکر تیار ہوگا۔
ذرائع کے مطابق بعض ایسے مطالبات بھی کیے گئے۔ جن پر صوبائی حکومت کیلئے تنہا کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہوگا۔ اس لئے وفاقی حکومت ہی ان پر کوئی فیصلہ کر سکے گی یا صوبائی حکومت وفاق کے ساتھ ان تجاویز اور مطالبات کو پیش کرکے لائحہ عمل طے کر پائیں گی۔ ادھر وزیراعلیٰ خیبر پختون علی امین گنڈاپور نے پشتون جرگے پر اسمبلی کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کر لیا اور اسمبلی اجلاس میں ان تجاویز پر بات کریں گے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ تمام اقوام کے مشران اور تمام پارٹیوں کے نمائندہ گان نے باہمی مشاورت کی۔
بحیثیت وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اِن تجاویز پر عملدرآمد یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ جو مطالبات صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں نہیں۔ اُن کو متعلقہ وفاقی حکام کے سامنے اُٹھائوں گا اور وفاق و دیگر حکام کے ساتھ بیٹھ کر ان مسائل کے حل کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ حکومت اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ عوامی اُمنگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسائل کو حل کرکے اُن کو مطمئن کریں۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ تمام حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران سے مشاورت کی جائے گی اور ان کی تجاویز کو زیر غور لایا جائے گا۔ واضح رہے کہ کالعدم پی ٹی ایم کے زیر اہتمام جرگے میں وزیرستان، باجوڑ، کوئٹہ، ژوب اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
جرگے کے مقام پر سیکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ ضلع خیبر کی تحصیل جمرود میں منعقدہ پشتون قومی جرگہ میں مختلف اضلاع کی جانب سے اپنے سربراہان کا تقرر کیا گیا۔ ضلع خیبر کے سربراہ حاجی برکت آفریدی کو مقرر کیا گیا۔ جبکہ تمام اضلاع اور مختلف تنظیموں میں سے 80 افراد پر مشتمل مشاورتی کمیٹی بنائی گئی۔ جو حلف لیکر اعلامیہ پیش کرے گی اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔ جرگہ میں خواتین نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی اور اپنے مسائل پر بحث کی۔ دوسری جانب جرگہ اختتام پذیر ہونے کے بعد پشاور اور خیبر میں معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ تاہم پورے ضلع خیبر اور پشاور میں گزشتہ 11 روز سے معطل اور موبائل انٹرنیٹ سروس بحال نہیں ہو سکی۔ جس کی وجہ سے پرائیویٹ کمپنیوں کو شدید مشکلات اور پریشانی درپیش ہے۔ جبکہ آن لائن کاروبار اور بزنس کرنے والوں کو بھی نقصانات کا سامنا ہے۔