کاشف ہاشمی :
کراچی میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر چینوں کے وفد اور ان کی سیکورٹی پر تعینات کانوائے پر کالعدم بی ایل اے کی جانب سے کیے جانے والے خودکش حملے کے بعد پولیس کی سیکورٹی کا پول کھول گیا۔ ماضی میں دہشت گرد تنظمیوں کی جانب سے شہر میں کیے جانے والی کاررائیوں کے بعد شہر میں فول پروف سیکورٹی دکھانے کیلئے کراچی پولیس نمائشی کارکردگی دکھانا شروع کردیتی ہے۔
دوسری جانب شہر کے پوش علاقوں سمیت مختلف علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں قائم گیسٹ ہائوسزکو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ صرف چند سو گیسٹ ہائوسزکا ریکارڈ پولیس کے پاس موجود ہے۔ جبکہ ہزاروں کی تعداد میں ریسٹ ہائوسزغیر قانونی طور پر چلائے جارہے ہیں۔ جہاں سے متعلقہ تھانوں سے لے کرایس ایس پیز آفسز تک بھاری رقم پہنچائی جا رہی ہے۔
6 اکتوبر بروز اتوار رات گیارہ بجے ائیرپورٹ سگنل نزد گارڈ روم کے قریب کالعدم بلوچ لیبریشن آرمی کے دہشت گرد شاہ فہد نے چینوں کے وفد اور حفاظت پر مامور سیکورٹی کانوائے پر خودکش حملہ کیا تھا۔ جس میں دو چینی باشندوں سمیت تین افراد جاں بحق ہوئے۔ سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں سمیت عام شہری بھی اس کی زد میں آکر شدید زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ سیکورٹی فورسز سمیت عام شہریوں کی 15سے زائد گاڑیوں تباہ ہوئیں تھیں۔ تاہم اس حملے میں کالعدم بی ایل اے کا حملہ آور شاہ فہد اور اس کی تنظیم 61 چینی باشندوں کو مارنے میں ناکام رہی۔ اس حملے میں دو چینی ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔ جبکہ دیگر چینی شہری معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔
اس دہشت گرد حملے کو شروع میں سندھ حکومت اور کراچی پولیس حادثہ قرار دیتی رہی اور کہا گیا کہ آئل ٹینکر پھٹا ہے۔ جبکہ جس جائے وقوعہ پر حکومتی نمائندوں نے میڈیا کو ابتدائی بریفنگ دی۔ اس مقام پر دور تک کوئی آئل ٹینکر موجود نہیں تھا۔ سول ایوی ایشن کا پانی ٹینکر اندھیرے میں کھڑا کرکے میڈیا سے جھوٹ بولا جاتا رہا۔ لیکن جھوٹ کچھ ہی گھنٹوں بعد کھل کر سامنے آگیا۔ اس حملے کے بعد کالعدم بی ایل اے نے تمام معلومات سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ یہاں تک کہ خودکش حملہ آور کا ویڈیو بیان بھی جاری کردیا۔
دوران تفتیش پولیس کو معلوم ہوا کہ دہشت گرد شاہ فہد کراچی متعدد بار آیا اور وہ شہر کے مختلف ہوٹلوں میں ساتھیوں کے ہمراہ قیام بھی کرچکا تھا۔ جس گاڑی میں 70 سے80 کلو سے زائد بارود نصب کیا گیا، وہ گاڑی کراچی میں ہی تیار کی گئی۔ لیکن کراچی پولیس کے مختلف ادارے، اسپیشل برانچ، سی ٹی ڈی، سی آئی اے، کرائم برانچ اور دیگر متعلقہ اداروں کو خبر نہ ہوئی۔جوگاڑی کانوائے سے ٹکرائی وہ جائے وقوع پر حملے سے نصف گھنٹے قبل موجود تھی۔ جبکہ شاہ فہد کے دیگر سہولت کار بھی وہاں موجود تھے جو حملہ ہونے کے بعد وہاں سے نکل گئے۔
ذرائع نے بتای اکہ جناح ٹرمینل کے اندر جانے والوں راستوں پر ائیرپورٹ سیکورٹی فورس کی سخت چیکنگ کے باعث دہشت گرد شاہ فہد اندر جانے سے قاصر رہا۔ جبکہ علاقہ پولیس تھانہ ائیرپورٹ کی اہم ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ائیرپورٹ کے باہر اپنی انٹیلی جنس کو چوکس رکھتا۔ لیکن پولیس اپنے دھندوں میں لگی ہوئی تھی اور دہشت گرد ان کی ناک کے نیچے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کیلیے تیار تھا۔ اس حملے کے باوجود ائیرپورٹ پولیس کے خلاف تاحال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔ حملے کے بعد پولیس نے روایتی کارکردگی کا آغاز کردیا کہ جیسے کہ پولیس نے شہر بھر میں قائم ہوٹلوں میں کارروائیاں شروع کردی کہ ان ہوٹلوں میں کون قیام کررہا ہے، کہاں سے آیا ہوا ہے اور کس مقصد کیلئے ٹھہرا ہے۔
اسی طرح ٹول پلازہ، ریلوے اسٹیشنز اور بس اڈوں پر بھی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ آنے جانے والے افراد کی دستاویزاتی کوائف چیک کیے جارہے ہیں۔ بہت سے ہوٹلوں میں اسپیشل برانچ کی جانب سے فراہم کی جانے والے ایپ (ہوٹل آئی) موجود نہیں۔ بلکہ بڑی تعداد میں رہائشی ہوٹل ہی غیر قانونی ہیں، جن ہوٹلوں میں ’’ہوٹل آئی‘‘ کی ایپ موجود ہے۔ اس ہوٹل کا عملہ جب مسافر کا ڈیٹا ایپ میں لوڈ کرے گا تو اس سے جرائم پیشہ یعنی کرمنل ریکارڈ کا حامل شخص کی فوری شناخت ہوجاتی اور اس کا مکمل ڈیٹا سامنے آجاتا ہے۔