محمد قاسم:
خیبرپختونخوا میں 134 سال پرانا انگریز کا قانون تبدیل کر دیا گیا۔ اب بٹیر، مرغ اور کتے لڑانے پر پابندی عائد کر کے خلاف ورزی پر نئی سزائیں تجویز کی گئی ہیں جس میں پالتو جانوروں کو تکلیف پہنچانا بھی قابل سزا جرم ہوگا۔ جبکہ گدھے ،گھوڑے اور خچر پر زیادہ وزن نہیں ڈالا جائے گا۔ مذبح خانوں میں جانوروں کے ساتھ رحم دلی کا طریقہ اپنایا جائے گا اور جانوروں کا علاج ماہر حیوانات ہی کر سکے گا۔ جبکہ بٹیر، مرغ اور کتوں کی لڑائیوں سے جنم لینے والی دشمنیوں کا بھی خاتمہ ممکن ہو سکے گا، جس کا عوام نے خیر مقدم کیا ہے۔
مجوزہ بل جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے تیار کیا گیا ہے جس کے تحت جانور پر زیادہ بوجھ ڈالنے یا تکلیف پہنچانے پر تین ماہ تک قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ ہو گا اور یہ دونوں سزائیں بیک وقت بھی دی جا سکیں گی۔ یہ قانون گائے، بھینس، بھیڑ، بکری، اونٹ،گھوڑا، گدھا، خچر ،مرغی، تیتر،بٹیر، ہنس، شتر مرغ یا حکومت کی جانب سے اس فہرست میں شامل کردہ دوسرے جانوروں کی فلاح و بہبود کے لئے نافذ ہوگا۔
اسی طرح جانوروں پر تشدد یا ان کو تکلیف پہنچانے کی صورت میں سزا کی مدت 6 ماہ قید اور جرمانہ ایک لاکھ روپے تک ہوگا ۔ اس حوالے سے جرم کے الزام پر درخواست کی سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ درجہ اول کریں گے جبکہ مذبح خانوں میں جانوروں کو ذبح کرتے وقت بھی رحم دلی اور آرام دہ طریقے اپنانے کی شق قانون میں شامل کی گئی ہے ۔ ذرائع کے مطابق باڑوں وغیرہ میں جانوروں کو غیر آرام دہ طریقے سے رکھنے پر بھی سزا ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ کتوں، بٹیر اور مرغ وغیرہ کو تفریح کے لئے لڑانے پر بھی پابندی عائد ہوگی اور اس کے لئے تین ماہ قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔
دوسری جانب پالتو جانوروں کے علاج کے لئے بھی معیار کا تعین کیاگیا ہے اور مستند یا لائسنس یافتہ ماہر امراض حیوانات کے علاوہ کسی اور فرد کو کسی بھی جانور کی سرجری یا علاج کی اجازت نہیں ہوگی۔ جانوروں کے حقوق سے متعلق کسی با ت کو چھپانے کی صورت میں بھی جانور کے مالک پر 10ہزار روپے جرمانہ اور تین ما ہ قید کی سزا نافذکی جا سکے گی ۔ واضح رہے کہ پشاور میں کتوں، بٹیر اور مرغوں کی لڑائی بعض لوگوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ مانا جانے کے علاوہ اس پر بھاری شرطیں بھی لگانا معمول بن گیا ہے۔
جمعہ کے روز پشاور شاہی باغ کے اطراف میں مرغوں کی خرید و فروخت جہاں عروج پر رہتی ہے وہیں بعض افراد مرغوں کی آپس میں لڑائی کروا کر بھاری شرطیں بھی لگاتے ہیں جس میں بعد ازاں نوبت ہاتھا پائی اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ کر دشمنی تک جا پہنچتی ہے ۔ ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ پشاور سے متصل دیہات اور مضافاتی علاقوں میں صرف کتوں، بٹیروں اور مرغوں کی لڑائی پر دس دس سال سے لوگوں کی دشمنیاں چلی آرہی ہیں اور کئی جرگے ہونے کے باوجود معاملات حل نہیں ہوئے۔ اسی لئے اس قانون کو ہوا کا تازہ جھونکا قرار دیاجارہا ہے کیونکہ اس سے ایک طرف بے زبان جانوروں کو ایذا پہنچانے کا سلسلہ رک جائے گا جبکہ دوسری جانب جو دشمنیاں بن رہی تھیں اور نسل در نسل منتقل ہونے کا خدشہ تھا وہ بھی رک جائیں گی ۔
اسی طرح پشاورمیں جہاں اتائی ڈاکٹر لوگوں کا علاج معالجہ مختلف بیماریوں میں کر کے ان کو مزید پیچیدہ بنارہے ہیں ایسے ہی جانوروں کے اتائی معالج بھی شہر میں موجود ہیں جو مختلف قسم کے چورن اور معجون تیار کرکے جانوروں کی ہلکی پھلکی بیماریو ں کو مزید سنگین بنا دیتے ہیں، ان کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور جانوروں کو بھی علاج معالجہ کی بہترین طبی سہولیات میسر آئیں گی۔ ذرائع کے مطابق پشاور شہر کے وسطی علاقوں میں گھوڑوں کا علاج کرنے کے لئے کئی اتائی موجود ہیں جو مختلف چورن تیار کر کے کو خوراک دیتے ہیں تاہم ان سے ان کی صحت پر مزید برے اثرات پڑتے ہیں اور بعد ازاں مالکان کے لئے مسائل مزید سنگین ہو جاتے ہیں ۔
اس حوالے سے شہریوں نے بھی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کی سزائیں پہلے ہی تجویز کر دی جاتیں تو بہتر تھا کیونکہ جانوروں کے ساتھ جو برا سلوک کیا جارہا ہے وہیں آنکھوں سے دیکھا بھی نہیں جا سکتا۔ ان کو بری طرح پیٹا جاتا ہے ان پر وزن اتنا ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ گر کر یا تو ہلاک ہو جاتے ہیں یا بری طرح زخمی ہونے کے بعد معذور ہونے کا خدشہ رہتا ہے جبکہ شدید گرمی اور تپتی دھوپ میں ان سے بے پناہ مشقت لی جاتی ہے۔