عالمی دن برائے خوراک کے موقع پر ٹرانسفارم پاکستان مہم کا کھانے کی اشیاء میں خطرناک ٹرانس فیٹ کے خاتمے کا مطالبہ
عالمی دن برائے خوراک کے موقع پر، ٹرانسفارم پاکستان مہم کے شراکت دار اداروں، پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹس (پی۔وائی۔سی۔اے)، وزارت قومی صحت، گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر (جی۔ایچ۔اے۔آئی)، سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹوز (سی۔پی۔ڈی۔آئی)، اور ہارٹ فائل نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹ کو تمام غذائی ذرائع میں 2 گرام فی 100 گرام چکنائی سے کم کرنے کے لیے فوری ضابطہ سازی کریں۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرانسفارم پاکستان مہم نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ جزوی طور پر ہائیڈروجنیٹڈ تیل (پی۔ایچ۔او) کی تیاری اور فروخت پر مکمل پابندی لگائی جائے کیونکہ یہ ہماری خوراک میں ٹرانس فیٹ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
ٹرانس فیٹ عام طور پر مارجرین، تلی ہوئی اشیاء، دودھ سے بنائی جانے والی مصنوعات، اور کئی دیگر الٹرا پروسیسڈ کھانوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ زہریلہ چربی کھانے کی اشاء کی ساخت، شیلف لائف، اور ذائقہ بڑھانے کے لیے استعمال کیے جاتے۔ صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹی ایسڈز (iTFAs) کے صحت کے لیے کوئی معروف فوائد نہیں ہیں اور یہ "خراب” کولیسٹرول کی سطح کو نمایاں طور پر بڑھاتے ہیں اور "اچھے” کولیسٹرول کو کم کرتے ہیں۔
یہ خاموش قاتل پاکستان میں صحت کے بحران کو ہوا دے رہے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں ہونے والی تمام اموات میں غیر متعدی امراض سے ہونے والی اموات کی شرح 58 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس ہی طرح پاکستان میں دل کی بیماریاں سالانہ 200,000 سے زیادہ جانیں لیتی ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ آئی-ٹی۔ایف- اے کی مقدار میں 2 فیصد اضافہ دل کی بیماریوں کے واقعات میں 23 فیصد اضافہ کر سکتا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ بچوں کے فارمولا دودھ میں بھی ٹرانس فیٹ پائے گئے ہیں۔
پاکستان میں اگرچہ کچھ کھانے پینے کی مصنوعات کو ٹرانس فیٹ کی حد کو سامنے رکھتے ہوئے ریگولیٹ کیا جا چکا ہے، لیکن بہت سی اشیاء کے لیے ابھی بھی کوئی ضابطہ موجود نہیں۔ 2023 میں، پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) نےکھانے کی بعض اشیاء کیا، لیکن الٹرا پروسیسڈ کھانے، مختلف اسنیکس، اور ڈیری مصنوعات، بشمول چاکلیٹ اور آئس کریم، بڑی حد تک ضابطے سے باہر ہیں۔
ٹرانس فیٹ کو تمام کھانوں میں 2 گرام فی 100 گرام کل چکنائی تک محدود کرکے عالمی اداراہِ صحت کی پالیسی کو اپنانا اور پی۔ ایچ۔او پر پابندی لگانا اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک واضح راستہ پیش کرتا ہے۔
ان ضوابط کو نافذ کرنے سے قلبی اور دیگر بیماریوں کے واقعات میں براہ راست کمی آئے گی، اور ہر سال ہزاروں قیمتی جانیں بچیں گی۔ یہ ہمارے صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر معاشی بوجھ کو بھی کم کرے گا، اور وسائل کو صحت عامہ کے دیگر اہم اقدامات کے لیے مختص کرنے کی اجازت دے گا۔
پاکستان کو تمام غذائی ذرائع میں ٹرانس فیٹس کو کل چکنائی کے 2 فیصد سے کم تک محدود کرنے اور صحت عامہ کو ترجیح دینے اور تمام شہریوں کے لیے محفوظ اور صحت بخش خوراک کی فراہمی کے لیے پی۔ایچ۔او پر پابندی لگانے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کرنا ہوگی۔