مولانا کے تعاون یا اپوزیشن ارکان توڑنے کی ضرورت نہیں رہے گی، فائل فوٹو
 مولانا کے تعاون یا اپوزیشن ارکان توڑنے کی ضرورت نہیں رہے گی، فائل فوٹو

آئینی ترمیم کا دوسرا مرحلہ خارج از امکان نہیں

امت رپورٹ :
چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد ستائیسویں آئینی ترمیم بھی لائی جائے گی۔ جس کیلئے نہ مولانا کی ضرورت پڑے گی اور نہ کسی اپوزیشن پارٹی کے ارکان توڑنا پڑیں گے۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع نے بتایا کہ حالیہ ترمیم، پہلا مرحلہ تھا۔ دوسرا مرحلہ خارج از امکان نہیں۔ اس کی ضرورت اس لیے محسوس کی جارہی ہے کہ اتحادی حکومت چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپنی نصف سے بھی کم شقیں منظور کرانے میں کامیاب ہو پائی ہے۔ اور اب وہ باقیماندہ شقیں بھی منظور کرانے کیلئے ایک اور ترمیم لانے کے مناسب وقت پر غور و خوض کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں منظور کی جانے والی چھبیسویں آئینی ترمیم کا اصل حکومتی مسودہ پچپن شقوں پر مشتمل تھا۔ تاہم جے یوآئی (ف) اور پی ٹی آئی نے مل کر ان شقوں کی تعداد بائیس کرادی تھی۔ مجبور اتحادی حکومت نے اسے مان لیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے کے ساتھ ترمیم لانا چاہتی تھی۔ ورنہ اس نے دانے پورے کرلئے تھے۔

ترک کی گئی شقوں میں سے چند بہت اہم تھیں، اور ان کا تعلق سانحہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو ان کے قانونی انجام تک پہنچانے سے تھا۔ کیونکہ حکومت کے خیال میں اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے پی ٹی آئی کے بعض ہمدرد اس میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ چھبیسویں ترمیم میں اس حوالے سے ایک براہ راست شق فوجی عدالتوں میں سویلین کے مقدمات چلانے کے حوالے سے تھی۔

پی ٹی آئی نے مولانا فضل الرحمٰن کے ذریعے جن دو شقوں کو نکلوانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور کامیاب رہی۔ ان میں سے ایک فوجی عدالتوں سے متعلق اور دوسری چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع یا انہیں آئینی بنچ کی سربراہی سے روکنے کے حوالے سے تھی۔

ذرائع کے مطابق اس صورتحال میں فیصلہ کیا گیا کہ فی الحال پہلے مرحلے میں اہم جوڈیشل ترامیم کرالی جائیں جو پچیس اکتوبر سے پہلے ناگزیر تھیں۔ باقی شقوں کا معاملہ دوسرے مرحلے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ پہلے مرحلے میں منظور کرائی جانے والی شقوں کا ابتدائی مقصد حکومت حاصل کر چکی۔ جس کے تحت جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کا راستہ روک دیا گیا ہے اور ایک آئینی بنچ بھی بننے جارہا ہے۔ اب تمام سیاسی و آئینی کیسز آئینی بنچ سنے گا۔

اس حوالے سے اب تک جتنے کیسز یا اپیلیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں، وہ سب آئینی بنچ کو منتقل ہو جائیں گی۔ ان میں سے بعض پی ٹی آئی اور اس کے بانی چیئرمین عمران خان سے متعلق بھی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے آٹھ اکثریتی ججز کے فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی کی اپیل بھی اب آئینی عدالت سنے گی۔ جسے مقرر کرنے میں جسٹس منصور علی شاہ اور ان کے ہمنوا ججز رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اس کا ذکر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اختلافی نوٹ میں نہایت شدت کے ساتھ کیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران کم از کم دو ایسے مواقع آئے جب الیکشن کمیشن یہ مخصوص نشستیں حکومتی اتحادی پارٹیوں میں دوبارہ تقسیم کرنے کا فیصلہ کرنے والا تھا۔ ان میں سے ایک موقع وہ تھا جب اٹھارہ اکتوبر کو اچانک اس خطرے کو بھانپتے ہوئے آٹھ اکثریتی ججز نے دوسرا وضاحتی حکمنامہ جاری کردیا۔

اسی روز آئینی ترمیم کیلئے پارلیمنٹ کا اجلاس بھی بلایا گیا تھا۔ یوں اکثریتی آٹھ ججز نے اپنے تئیں ایک تیر سے دو شکار کیے۔ واضح رہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے وہ مخصوص نشستیں حکومتی اتحادی جماعتوں کو واپس کرے۔

اس سلسلے میں الیکشن کمیشن متعدد اجلاس بلا چکا ہے۔ لیکن تاحال کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کے حوالے کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کے متنازعہ ترین فیصلے پر الیکشن کمیشن کسی صورت عمل نہیں کرے گا اور اب جلد ہی قومی اسمبلی کی یہ نشستیں نون لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کو واپس ملنے والی ہیں۔ جس کے بعد حکومت آئینی ترمیم کے دوسرے مرحلے کی طرف بڑھ سکتی ہے۔

ان ذرائع کے بقول اوّل تو الیکشن کمیشن ازخود یہ نشستیں اتحادیوں کے حوالے کردے گا۔ ورنہ آئینی بنچ میں نظر ثانی کی اپیل منتقل ہونے کے بعد اتحادیوں کے حق میں فیصلہ آنے کے قوی امکانات ہیں۔ کیونکہ آٹھ اکثریتی ججز کا فیصلہ کسی طور پر آئین اور قانون کے مطابق نہیں تھا۔ قبل ازیں اس فیصلے کو اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس امین الدین نے غیر آئینی اور ناقابل عمل قرار دیا تھا اور اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اختلافی نوٹ میں رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔

اتحادیوں کو مخصوص نشستیں ملنے کی صورت میں حکومت کو نہ صرف قومی اسمبلی میں مطلوبہ دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے گی۔ بلکہ اسی تناسب سے اسے سینیٹ کی مزید سیٹیں بھی ملیں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہی وہ موقع ہوگا جب اتحادی حکومت آئینی ترمیم کے دوسرے مرحلے کی طرف بڑھے گی اور اس بار اس کے پاؤں میں مولانا یا کسی دوسری اپوزیشن پارٹی کی بیڑیاں بھی نہیں ہوں گی۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے دوسرے مرحلے میں حکومت فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے سویلین کا مقدمہ بھی فوجی عدالتوں میں چلانے کا راستہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔

کیونکہ عدلیہ کا موجودہ سسٹم 9 مئی کے ملزمان کو بادی النظر میں تحفظ فراہم کر رہا تھا۔ اس کو دیکھتے ہوئے ہی چھبیسویں آئینی ترمیم کے اصل مسودے میں فوجی عدالتوں سے متعلق شق شامل کی گئی تھی، جو پی ٹی آئی مولانا کی کاوشوں سے نکلوانے میں وقتی طور پر کامیاب ہو گئی۔ اس شق کو نکلوانے میں پی ٹی آئی کی بے چینی کے پیچھے عمران خان کا یہ خوف کار فرما ہے کہ 9 مئی کے مرکزی منصوبہ ساز کے طور پر انہیں فوجی تحویل میں لیا جاسکتا ہے، تاکہ ان پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا جا سکے۔

یاد رہے کہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا معاملہ اس وقت سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ تاہم چھبیسویں ترمیم کے بعد یہ اپیل بھی آئینی بنچ کو منتقل ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر آئینی بنچ میں یہ اپیل منتقل ہونے کے بعد 9 مئی کے حملہ آوروں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا حق مل جاتا ہے تو پھر شاید ترمیم کے دوسرے مرحلے کے مسودے میں اس شق کی شمولیت اتنی ضروری نہ ہو۔ لیکن پھر بھی دیگر شقوں کی منظوری کیلئے ستائیسویں آئینی ترمیم ضروری ہے۔ اس مجوزہ ترمیم میں آئینی بنچ کو کیسوں کی منتقلی سے متعلق پھیلائے جانے والے بعض ابہام کو بھی دور کیا جاسکتا ہے۔ یا اس کی تشریح بھی آئینی بنچ سے ہی کرا لی جائے گی۔

واضح رہے کہ بعض مایوس عدالتی شخصیات اور ان کے ہمنوا وکلا آئینی بنچ کے قیام کو متنازعہ بنانے کے کام پر لگ گئے ہیں۔ ان کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات میں ایک یہ بھی ہے کہ یہ تعین کیسے کیا جائے گا کہ کون سے کیسز آئینی ہیں اور سپریم کورٹ کے بجائے آئینی بنچ کو سننے چاہئیں۔ بعض قانونی ماہرین کے مطابق اس طرح کے لوگوں کا منہ بند کرنے کیلئے چھبیسویں ترمیم کی آئینی بنچ سے متعلق شق میں چند مزید ترامیم کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ تاکہ واضح تشریح کرکے جو ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسے ختم کردیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔