سید نبیل اختر:
گزشتہ برس کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ٹرمینل کو 50 برس کیلئے ابوظہبی کے ایک کاروباری گروپ کو آئوٹ سورس کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد کے پی ٹی کے سرکاری عملے کا کام محض 20 فیصد رہ گیا ہے۔ بابر غوری کے دور میں کی جانے والی بھرتیوں کے بعد سے ادارے میں ملازمین کی بھرمار ہے۔ ایک ہزار سے زائد ملازمین کو غیرقانونی طور پر کروڑوں روپے کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔ ایسے میں پورٹ ٹرسٹ میں مزید بھرتیاں قومی خزانے پر بوجھ بنیں گی۔ یہ بھرتیاں فی الحال کنٹریکٹ کے نام پر کی جارہی ہیں۔ تاہم انہیں کنٹریکٹ میں توسیع اور بیشتر کو مستقل کر دیا جائے گا۔
جون 2023ء میں ابوظہبی کے اے ڈی پورٹس گروپ کی جانب سے پاکستان میں بندرگاہوں کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا۔ ابوظہبی گروپ کا یہ معاہدہ پچاس برس کیلئے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ساتھ طے پایا۔ جس کے تحت یہ گروپ کراچی بندرگاہ پر ایک ٹرمینل ڈویلپ کرے گا۔ اس کے علاوہ کے پی ٹی اور پورٹ قاسم کے درمیان ریل رابطے کیلئے بھی یہ گروپ سرمایہ کاری کرے گا اور ایک اسپیشل اکنامک زون بھی اس منصوبے کے تحت تعمیر کیا جائے گا۔ سرکاری اعلامیے میں ابوظہبی گروپ کی جانب سے اس منصوبے کیلئے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ جس میں سب سے نمایاں کراچی گیٹ وے ٹرمینل لمیٹڈ کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔
پورٹ اینڈ شپنگ سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ابوظہبی گروپ کی جانب سے پاکستان میں جہاز رانی اور بندرگاہ کے شعبے میں اس سرمایہ کاری اور اس سلسلے میں معاہدے پر دستخط ایک ایسے وقت ہوئے جب پاکستان مالی بحران کا شکار ہے اور تمام دوسرے معاشی اشاریوں کی طرح ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے شعبے میں بھی تیزی سے تنزلی ہوئی ہے۔
ابوظہبی کے اے ڈی پورٹس گروپ کی جانب سے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ساتھ جو معاہدہ ہوا۔ اس کے تحت سرمایہ کاری اسٹرکچر اوورسیز اسٹرکچرز کی تعمیر میں کی جائے گی۔ جس کیلئے ایک بڑی سرمایہ کاری 2026ء کیلئے ہو گی۔ اس منصوبے کے تحت برتھوں کی گہرائی زیادہ ہو گی اور کینٹنر اسٹوریج میں توسیع کے ذریعے کنٹینر گنجائش ساڑھے ساتھ لاکھ سے دس لاکھ سالانہ ہو جائے گی۔ ابوظہبی کا یہ گروپ 2006ء میں قائم ہوا۔ جو ابوظہبی کو دنیا کے دوسرے خطوں سے ملاتا ہے۔ گروپ کا دعویٰ ہے کہ وہ پورٹس اکنامک سینٹر اور فری زونز کے کلسٹر چلاتا ہے۔ اس کے علاوہ گروپ دنیا بھر میں دس بندرگاہوں اور ٹرمینلز کو بھی آپریٹ کر رہا ہے۔
معاہدے کے تحت جو برتھیں اے ڈی پورٹس گروپ کو دی گئیں۔ ان میں سے دو برتھیں پہلے ایک نجی گروپ پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل کے پاس تھیں۔ پی آئی سی ٹی کے ساتھ معاہدہ 2023ء کے جون میں ختم ہوا تو ان کے کنٹریکٹ میں توسیع نہیں کی گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ پی آئی سی ٹی کے علاوہ دو کنٹینر ٹرمینل چینی کمپنیوں کے پاس ہیں جو انہیں چلا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک سائوتھ ایشیا ٹرمینل ہے اور دوسرا کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل ہے۔ اس طرح پورٹ قاسم پر دبئی گروپ دبئی پورٹس ایک ٹرمینل چلا رہا ہے۔
سابق متحدہ وزیر فیصل سبزواری نے معاہدے کے وقت اس بات کو مسترد کیا کہ کراچی پورٹ کو فروخت کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ابوظہبی پورٹ گروپ سے معاہدے میں کے پی ٹی کو فی کنٹینر 18 ڈالر کی رائلٹی ملے گی۔ ایم کیو ایم کے سابق وزیر نے ایک جانب ابوظہبی پورٹس گروپ کو ٹرمینل دے دیا۔ دوسری جانب کام نہ ہونے کے باوجود کے پی ٹی میں ملازمین کی سوداکار یونین کے ذریعے اپنے کارکنوں کی بھرتیوں کو جاری رکھا۔ کے پی ٹی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ پورٹ ٹرسٹ میں اب سرکاری عملے کی اتنی ضرورت نہیں کہ وہاں مزید افراد بھرتی کیے جائیں۔ ادارہ پہلے ہی بابر غوری دور میں کی جانے والی بھرتیوں پر ماہانہ کروڑوں روپے کی غیرقانونی ادائیگیاں کررہا ہے۔
ایسے میں پورٹ ٹرسٹ کے جنرل منیجر ایڈمن نے درجنوں نئی بھرتیوں کیلئے گریڈ 17 اور 18 کی پوسٹوں پر انٹرویوز کرلئے ہیں۔ ایک حکمنامے کے مطابق بی پی ایس 18 کی مکینیکل انجینئر کی 04 پوسٹوں کیلئے امیدوار شارٹ لسٹ کیے گئے ہیں۔ جبکہ گریڈ 18 کے سرجن کیلئے 3، گریڈ 17 کے بائیو میڈیکل انجینئر کیلئے 11، گریڈ 17 کے میرین انجینئر کیلئے ایک، گریڈ 17 کے اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر پلاننگ اینڈ ڈولپمنٹ کیلئے 18 اور گریڈ 16 کے جونیئر اکائونٹنٹ کی 16 اسامیوں پر امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے۔ ان کے تحریری امتحانات 16 اکتوبر کو اسٹاف کالج میں لیے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شارٹ لسٹ میں شامل تمام امیدوار ایم کیو ایم کی سی بی اے کی منظوری سے شارٹ لسٹ کیے گئے۔ جنہیں کے پی ٹی میں بھرتی کیا جائے گا۔ مذکورہ بھرتیوں کے حوالے سے ادارے میں موجود ان ملازمین میں بے چینی پائی جاتی ہے جو ان عہدوں کیلئے گزشتہ 25 اور 30 برس سے متعلقہ ڈپارٹمنٹس میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
دوسری جانب کے پی ٹی میں متحدہ کارکنوں کی غیر قانونی بھرتیوں کے خلاف کیس تیار کرنے والے سابق منیجر ایچ آر بے گناہ ثابت ہونے پر عدالت سے باعزت بری ہوگئے۔ ارباب انس پر ایف آئی اے کے ذریعے پرسونل ریکارڈ میں ٹیمپرنگ، جعلسازی اور سرکاری دستاویزات غائب کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ عدالت نے انہیں باعزت بری کردیا ہے۔ رابطے پر انہوں نے بتایا کہ انہیں ایم کیو ایم کی قیادت کو خوش کرنے کیلئے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ بابر غوری دور میں ہونے والی بھرتیاں غیر قانونی ہیں اور اس ضمن میں حکومتی کمیٹیاں بھی اپنی سفارشات پیش کرچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہر پلیٹ فارم پر متحدہ کی غیر قانونی بھرتیاں اور انہیں کی جانے والی ادائیگیوں کو غیر قانونی ثابت کرسکتے ہیں۔