نمائندہ امت :
سندھ کے ترقیاتی منصوبوں میں ہونے والی کرپشن کے اسکینڈلز آئے روز میڈیا میں آتے رہتے ہیں۔ لیکن اب سندھ کے اپنے ہی ڈپارٹمنٹ محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات نے تقریباً 51 ارب روپے لاگت کے 100 منصوبوں پر کام کو غیر معیاری اور غیر تسلی بخش قرار دے دیا ہے۔ جس کے بعد ان تمام منصوبوں کیلئے مزید فنڈز کا اجرا روک دیا گیا ہے۔ ان منصوبوں میں صوبے کے 8 شہروں میں اسپورٹس اسٹیڈیم کا قیام، بڑے شہروں میں ٹاؤن شپ کی ترقی، مویشی کالونیوں کی تعمیر، گمبٹ ڈائیگناسٹک سینٹر کی تعمیر، لاڑکانہ میں قائد عوام یونیورسٹی کیمپس کی تعمیر اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ کیلئے قائم کردہ محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے مانیٹرنگ سیل کی اپنی ہی جائزہ رپورٹ میں جن مختلف محکموں کے 51 ارب روپے کی لاگت کے جاری منصوبوں پر کام کو غیر تسلی بخش و غیر معیاری قرار دے کر صوبائی محکمہ خزانہ کو مزید فنڈز جاری نہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ان میں محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے 7 پروجیکٹ، محکمہ وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے 20، محکمہ اسپورٹس اور محکمہ صنعت کا ایک ایک منصوبہ، محکمہ سماجی بہبود کے 7 پروجیکٹ اور لائیو اسٹاک اینڈ فشریز کے 7، محکمہ آبپاشی کے 13، محکمہ صحت کے 11 اور محکمہ تعلیم کے 30 سے زائد منصوبے شامل ہیں۔
محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے مانیٹرنگ سیل کی رپورٹ کے مطابق ان پروجیکٹس میں تھرکول فیلڈ میں صاف پانی کی فراہمی کیلئے نبی سر کے مقام پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کے ساتھ بینظیرآباد میں خواتین کے ترقیاتی کمپلیکس کے قیام کیلئے 4 کروڑ 47 لاکھ روپے کا منصوبہ اور محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے ذریعے سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے پر کام کو بھی غیر معیاری قرار دیا گیا ہے۔ ضلع شکارپور کے شہر مدیجی سٹی کے ریلوے اسٹیشن روڈ کی بحالی کا منصوبہ، میہڑ، گھارو، چوہڑ جمالی، گھوڑا باڑی، سڑکوں کی تعمیر کے مختلف منصوبوں سمیت 6 سڑکوں کے منصوبوں کو غیر معیاری قرار دیا گیا ہے۔
کوٹری شہر میں اوور ہیڈ برج کی تعمیر کے ایک ارب 74 کروڑ روپے کے منصوبے اور تھرپارکر میں سینئر سٹیزن بحالی مرکز کے قیام کیلئے 6 کروڑ روپے کا منصوبہ بھی غیر معیاری قرار دیا گیا۔ محکمہ کھیل کے جن منصوبوں کے کام کو غیرمعیاری قراردیا گیا۔ ان میں سندھ کے 8 اضلاع مٹیاری، جامشورو، حیدرآباد، تھرپارکر، سانگھڑ، شکارپور، جیکب آباد اور ٹنڈو الہیار میں اسٹیڈیمز کی تعمیر، جبکہ مختلف اضلاع میں ڈرینیج اور واٹر سپلائی کی 16 اسکیموں کی کارکردگی بھی غیر تسلی بخش بتائی گئی ہے اور ان منصوبوں کی فنڈنگ بھی روک دی گئی ہے۔ دیگر منصوبوں میں شہید بے نظیرآباد اسپتال میں آئی سی یو کا قیام، گمبٹ ڈائیگنوسٹک سینٹر، خیرپور ڈی ایچ کیو اسپتال، سکھر کیمیکل لیب ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کو بھی غیر معیاری قرار دیا گیا۔ محکمہ یونیورسٹیز و بورڈز، کالج ایجوکیشن اور اسکول ایجوکیشن کے 30 سے زائد پروجیکٹس کے بارے میں بھی غیر تسلی بخش رپورٹس دی گئی ہیں۔
صوبائی محکمہ آبپاشی کے تقریبا 12 ارب روپے لاگت کے 12 منصوبوں کا کام بھی غیر معیاری قرار دے دیا گیا۔ ان منصوبوں میں جوہی برانچ کی بحالی کا منصوبہ، خیرپور میں سی سی لائننگ کا منصوبہ، ٹنڈو محمد خان اور سجاول میں ایک ارب روپے کی لاگت سے اسٹون پچنگ کا منصوبہ غیر معیاری قرار دیا گیا ہے۔ لاڑکانہ میں رائس کینال کی محفوظ دیوار بنانے، ضلع شہید بینظیر آباد میں روہڑی مین کینال کی لائننگ 6 ارب 34 کروڑ روپے کا منصوبہ بھی ناکارہ قرار دیا گیا۔ اسی طرح محکمہ آبپاشی کے 12 منصوبوں پر کام کی بھی غیر تسلی بخش رپورٹ دی گئی۔ جس کے بعد ان منصوبوں کی فنڈنگ بھی روک دی گئی ہے۔
رپورٹ میں لاڑکانہ میں قائد عوام یونیورسٹی کیپس کے قیام کیلئے ایک ارب 50 کروڑ روپے کی لاگت کے منصوبے پر کام، بھٹ شاہ میں صوفی یونیورسٹی کے قیام کیلئے ایک ارب 4 کروڑ روپے کے منصوبے پر کام اور جامعہ کراچی میں 53 کروڑ روپے کی لاگت سے سینٹر کے قیام کا منصوبہ بھی غیر تسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔ مانیٹرنگ سیل کی رپورٹ کے بعد محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات نے متعلقہ محکموں کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ فوری طور پر ان ترقیاتی منصوبوں کے کام کو درست کیا جائے۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں ترقیاتی منصوبوں کا کام غیر معیاری اور غیر تسلی بخش ہونا معمولی بات ہے۔ کیونکہ کئی ایسے ترقیاتی منصوبے بھی ہوتے ہیں، جن پر کام شروع نہیں ہوتا اور ان کے مکمل ہونے کی رپورٹ ریکارڈ میں ظاہر کردی جاتی ہے۔ جہاں تک ترقیاتی منصوبوں پر کام کے غیر معیاری ہونے کی بات ہے تو وہ صرف درج بالا ایک سو منصوبے نہیں۔ بلکہ ایسے سینکڑوں ترقیاتی منصوبے ہیں، جن پر کام کے غیر معیاری ہونے کی رپورٹس جاری بھی ہوتی ہیں۔ لیکن عملی طور پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ترقیاتی منصوبوں پر کام غیر معیاری ہونے کی بنیادی وجہ اوپر سے نیچے تک کمیشن خوری کا سسٹم ہے۔ اس کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں میں سیاسی شخصیات کی بے جا مداخلت بھی کرپشن کا سبب ہے۔