ایف آئی اے کی رپورٹ پر کیس چلایا جائے گا، فائل فوٹو
ایف آئی اے کی رپورٹ پر کیس چلایا جائے گا، فائل فوٹو

صارم برنی سمیت پانچ ملزمان قصور وار قرار

سید حسن شاہ:
بچوں کی اسمگلنگ اور دستاویزات میں ردوبدل سے متعلق کیس میں صارم برنی ویلفیئر ٹرسٹ کے ٹرسٹیز صارم برنی اور ان کی اہلیہ عالیہ صارم برنی سمیت 5 ملزمان کو قصور وار قرار دے دیا گیا۔ ایف آئی اے نے امریکی قونصل جنرل کراچی کی شکایت پر درج مقدمہ کی تحقیقات مکمل کرلیں۔ تحقیقات میں سامنے آیا کہ ملزمان، صارم برنی ٹرسٹ کے نام سے حقیقی والدین سے ان کے بچے لیکر دوسری فیملیز کو فروخت کرتے رہے۔ ایف آئی اے نے شواہد اکٹھا کرکے حتمی رپورٹ ٹرائل کورٹ میں جمع کرادی۔ جس کی بنیاد پر صارم برنی سمیت دیگر ملزمان پر کیس چلایا جائے گا۔

واضح رہے کہ ایف آئی اے میں صارم برنی ٹرسٹ کے خلاف بچوں کی بیرون ملک اسمگلنگ اور دستاویزات میں ردوبدل سے متعلق مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جس کی تحقیقات مکمل کرلی گئی ہیں اور ایف آئی اے نے صارم برنی ٹرسٹ کے خلاف شواہد جمع کرکے حتمی رپورٹ جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں جمع کرادی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قونصل جنرل یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکا کراچی، کی جانب سے ایف آئی اے کو صارم برنی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے خلاف تحریری شکایت کی گئی۔ جس میں کہا گیا کہ یو ایس ایمبیسی اسلام آباد نے کراچی میں واقع صارم برنی ٹرسٹ کا دورہ کیا اور چیف ایگزیکٹو افسر سے ملاقات کی اور لاوارث و گود لئے گئے بچوں سے متعلق معلومات لیں۔

فراہم ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا کہ دو بچیاں جنت اور فاطمہ کے گارجین شپ کی دستاویزات میں ان کے نام تبدیل کرکے سارہ اور زہرہ لکھے گئے۔ جبکہ ایک حلف نامے میں دونوں بچیوں کے والد محمد واصف کا کہنا تھا کہ اس کی بیوی گھر چھوڑ کر جاچکی ہے اور یہ دونوں بچیاں صارم برنی ٹرسٹ کے حوالے کررہا ہے۔ تاکہ ضرورت مند خاندان کو گود دی جاسکیں۔ فیملی کورٹ میں صارم برنی ٹرسٹ کی جانب سے جمع کرائی گئی دستاویزات میں کہا گیا کہ یہ دونوں بچیاں انہیں ٹرسٹ کے باہر لاوارث ملی تھیں۔ ان کے والدین کو ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی، مگر کوئی نہیں ملا۔ ان دونوں بچیوں کے معاملے میں امیگریشن عملے سے غلط بیانی کی گئی اور ان دونوں بچیوں کے نام بھی تبدیل کیے گئے۔

اسی طرح امیگریشن ٹیم اسلام آباد کو صارم برنی ٹرسٹ کے لیگل ڈپارٹمنٹ کے انچارج بسالت اے خان کی جانب سے ای میل موصول ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ محمد ایاز خان نے اپنی بیٹی منتہا کو صارم برنی ٹرسٹ کے حوالے کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ کسی دوسری فیملی کو گود دینے میں اسے کوئی اعتراض نہیں۔ صارم برنی ٹرسٹ کی جانب سے ایک اور بچی حیا نور سے متعلق فیملی کورٹ میں دستاویزات جمع کراتے ہوئے بتایا گیا کہ انہیں یہ بچی صارم برنی ٹرسٹ کے باہر سے لاوارث ملی ہے۔ اس کے والدین کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کی گئی مگر کوئی بھی سامنے نہیں آسکا۔

امیگرنٹ ویزہ یونٹ عملے کو پتا چلا کہ بچی کا نام تبدیل کیا گیا ہے اور عدالت میں بھی غلط بیانی کی گئی ہے۔ تینوں بچیوں کے معاملے میں یہ بات سامنے آئی کہ صارم برنی نے جو دستاویزات جمع کروائیں، اس میں یہ بتایا گیا کہ والدین نے خود بچیاں ٹرسٹ کے حوالے کی ہیں اور انہیں کسی دوسری فیملی کو گود دینے میں اعتراض نہیں۔ جبکہ فیملی کورٹ میں کہا گیا کہ تینوں بچیاں صارم برنی ٹرسٹ کے باہر لاوارث ملی ہیں۔ لہذا ان معاملات کی تحقیقات کی جائے۔ ایف آئی اے کی جانب سے شکایت موصول ہونے پر تحقیقات کی گئیں۔

ایف آئی اے کی تحقیقات میں سامنے آیا کہ صارم برنی اپنے ایسوسی ایٹس بسالت اے خان، حمیرا ناز و دیگر کے ساتھ مل کر بچوں کی دستاویزات میں ردوبدل کرتے تھے اور فیملی کورٹ میں جمع کرواکے بچوں کی غیر قانونی طور پر گارجین شپ حاصل کرلیتے تھے۔ تاکہ انہیں بیرون ملک میں گود دینے کے نام پر اسمگل کیا جاسکے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صارم برنی ٹرسٹ نے تینوں بچیوں کو غیر ملکی فیملی کو گود دینے کیلئے فی کس 3 ہزار ڈالر بھی وصول کیے۔

ان کے علاوہ مزید 6 کیسز بھی سامنے آئے اور ان میں بھی صارم برنی ٹرسٹ نے بچوں کو لاوارث قرار دیکر اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ جن میں فرقان، آرون، عائشہ، امیرہ، زویہ حسن اور مریم شامل ہیں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ملزمان ملی بھگت سے بچوں کو ان کے حقیقی والدین سے ایڈاپٹ کرتے تھے اور ان کو لاوارث قرار دیکر گارجین شپ حاصل کرلیتے تھے۔ اس کے بعد انہیں غیر ملکی خاندانوں کو گود دینے کے نام پر فروخت کردیتے تھے۔ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملزم صارم برنی جو صارم برنی ٹرسٹ کا ٹرسٹی ہے اور ٹرسٹ کے تمام انتظامی و دیگر معاملات کو سنبھالتا ہے۔

ملزم حقیقی والدین سے بچوں کو گود لیتا ہے اور پھر غیر قانونی طور پر کسی دوسری فیملی سے پیسے وصول کرکے انہیں دے دیتا ہے۔ ملزم صارم برنی کی غیر قانونی سرگرمیوں کے حوالے سے تین بچیوں کے والدین نے تصدیق کی ہے۔ جن کے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت بیانات بھی قلمبند کرادیئے گئے ہیں۔ ملزمہ عالیہ صارم برنی بھی ٹرسٹ کی ٹرسٹی ہیں اور وہ بھی اپنے شوہر صارم برنی کے ساتھ ٹرسٹ کے انتظامی و دیگر معاملات چلاتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کی جانب سے بچوں کی غیر قانونی خرید و فروخت سے باخبر تھیں۔ جبکہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے شوہر دیگر ملزمان سے ملی بھگت کرکے بچوں کے جعلی دستاویزات کے ذریعے گارجین شپ حاصل کرتے تھے۔

ملزم بسالت علی خان صارم برنی ٹرسٹ کا لیگل ایڈوائزر ہے۔ جو فیملی کورٹ میں بچوں کے حوالے سے اصل حقائق کو چھپاتے ہوئے دستاویزات تیار اور جمع کراتا ہے۔ ملزمہ حمیرہ ناز صارم برنی ٹرسٹ کے شیلٹر ہوم کی انچارج ہے اور اس نے فیملی کورٹ میں بچوں کے داخلے اور لاوارث سرٹیفکیٹ جمع کروائے تھے۔ جبکہ ملزمہ نے دو بچوں کو غیرملکی خاندانوں کو فروخت کیے جانے کے 6 ہزار ڈالر وصول کیے تھے۔

ملزمہ مدیحہ سرجانی ٹاؤن میں پرائیویٹ کلینک چلاتی ہے۔ اس نے حیا نور بچی کو حقیقی والدین سے لیکر دوسری فیملی کو ساڑھے تین لاکھ روپے میں فروخت کیا تھا۔ ایف آئی اے کی جانب سے اس کیس میں صارم برنی، عالیہ صارم برنی، بسالت علی خان، حمیرہ ناز اور مدیحہ اسلام کو قصور وار قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ ملزمان کے خلاف شواہد اور تحقیقاتی رپورٹ متعلقہ عدالت میں جمع کرادی گئی ہے۔ ایف آئی اے کی اس تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر صارم برنی سمیت پانچوں ملزمان کے خلاف کیس چلایا جائے گا۔