عمران خان :
حساس اداروں کی رپورٹس پر ہیوی بائیکس کے خلاف کراچی میں بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کا آغاز کردیا گیا۔ کسٹمز کی ٹیموں نے پوش علاقوں کے گوداموں پر چھاپے مار کر 44 کروڑ روپے مالیت کی اسمگل شدہ ہیوی موٹر سائیکلیں ضبط کرلیں۔ ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ تمام ہیوی موٹرسائیکلیں ٹمپرڈ تھیں۔ یعنی ان کے چیسس اور انجن نمبرز پہلے سے ایکسائز اینڈ موٹر رجسٹریشن ڈپارٹمنٹس میں رجسٹرڈ ہیں اور ان کوائف پر گاڑیاں ملک میں پہلے سے چل رہی ہیں۔ اس انکشاف کے بعد اس میں ملوث نیٹ ورک کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔ کیونکہ ایسی ہیوی بائیکس اپنی تیز رفتاری کے باعث ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی استعمال ہوسکتی ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز کسٹمز انفورسمنٹ کلکٹریٹ کراچی کی اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن (اے ایس او) کی جانب سے کراچی میں ایک بڑا آپریشن کیا گیا جس میں پہلی بار بڑے پیمانے پر قیمتی غیر ملکی لگژری موٹر سائیکلیں بھاری تعداد میں ضبط کی گئیں۔ اس سے پہلے روایتی طور پر کئی دھائیوں سے لگژری اسمگل شدہ کاروں کے خلاف ایسے کسٹمز آپریشن کئے جاتے رہے ہیں۔ تاہم ہیوی بائیکس کے حوالے سے ایسی کارروائیاں نہیں دیکھنے میں آئیں۔
اس حوالے سے کسٹمز حکام کا کہنا تھا کہ حساس ادارے کی طرف سے کسٹمز انفورسمنٹ کلکٹریٹ کو معلومات فراہم کی گئیں کہ شہر میں اسمگل شدہ ہیوی بائیکس بڑے پیمانے پر سپلائی اور فروخت کی جا رہی ہیں جس کے لئے ایک بڑے نیٹ ورک نے ملیر کینٹ، صدر اور ڈیفنس فیز ون کے علاقے میں گودام قائم کئے گئے ہیں۔ مذکورہ اطلاع پر ایڈیشنل کلکٹر انفورسمنٹ باسط حسین اور ڈپٹی کلکٹر اینٹی اسمگلنگ محمد رضا نقوی کی سربراہی میں اے ایس او کی ٹیموں نے صدر کراچی، ملیر کینٹ اور ڈی ایچ اے فیز ون میں قائم دو گوداموں پر چھاپے مارے ۔ اس آپریشن کے دوران مجموعی طور پر 40کے قریب ہیوی موٹر سائیکلیں اور 21 کاریں ضبط کرلیں۔ آپریشن کے دوران ضبط کی گئی موٹر سائیکلوں کی مالیت کا اندازہ 44 کروڑ روپے سے زائد لگایا گیا ہے۔ کارروائیوں کے بعد ملوث گودام مالکان اور ان کے سپلائر نیٹ ورک کے خلاف تفتیش کے لئے مقدمات درج کر لئے گئے ہیں۔
کسٹمز ذرائع کے مطابق بر آمد ہونے والی ہیوی موٹر سائیکلوں میں ہنڈا، کاواساکی اور سوزوکی کمپنی سمیت دیگر غیر ملکی کمپنیوں کی بائیکس شامل ہیں۔ مذکورہ آپریشن اس اطلاع پر کیا گیا کہ یہ نیٹ ورک اسمگل شدہ گاڑیاں سپلائی اور فروخت کر رہے ہیں۔ تاہم بعد ازاں جب ان موٹر سائیکلوں کو ضبط کرنے کے بعد مزید چھان بین کی گئی تو انکشاف ہوا کہ یہ تمام گاڑیاں ٹمپرڈ ہیں یعنی، اسمگلنگ سے زیادہ سنگین جرم کا ارتکاب کیا جا رہا تھا۔
کسٹمز ذرائع کے بقول ان تمام گاڑیوںکے اصل انجن اور چیسس نمبرز کو مٹا کر ان پر ایسی موٹر سائیکلوں کے انجن اور چیسس نمبرز درج کئے گئے تھے جو پہلے سے ملک کے مختلف صوبائی ایکسائز ڈپارٹمنٹس میں رجسٹرڈہیں۔ تاہم ضبط ہونے والی زیادہ تر موٹر سائیکلوں کے کوائف سندھ ایکسائز ڈپارٹمنٹ درج نکلے۔ جس کے بعد ایسے ایجنٹوں اور ایکسائز ڈپارٹمنٹ سندھ میں موجود کالی بھیڑوں کے حوالے سے بھی تحقیقات شروع کردی گئی ہے جن کے ذریعے پہلے سے رجسٹرڈ گاڑیوں کے کوائف اس نیٹ ورک کے ذریعے حاصل کئے جا رہے تھے۔
کسٹمز ذرائع کے بقول ہیوی موٹر سائیکلوں کے خلاف اکثر آپریشن سڑکوں پر اس لئے ناکام ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی اسپیڈ زیادہ ہوتی ہے اور ان کو پکڑنے میں مشکل ہوتی ہے۔ جبکہ موٹر سائیکلیں چلانے والے سڑکوں پر تیزی سے بڑی گاڑیوں کے درمیان میں سے نکل جاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان بائیکس کی مالیت 25 لاکھ سے شروع ہوکر ڈیڑھ کروڑ روپے تک ہوتی ہے اور یہ پوش علاقوں میں متمول خاندانوں کے نوجوان ہی چلاتے ہیں۔ اس لئے اگر ان کو ٹمپرڈ گاڑیاں بھی مل جائیں تو مقامی پولیس انہیں زیادہ چیک نہیں کرتی ہے۔ تاہم اس کے نتیجے میں اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ ایک انجن اور چیسس نمبرز کی فائل پر کئی کئی گاڑیاں ملک کی سڑکوں پر دوڑنے لگی ہیں۔ تاہم یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اتنی بڑی مقدار میں ہیوی موٹر سائیکلیں ایک ہی گودام سے ملی ہیں۔ اس گودام مالک کے حوالے سے کسٹمز ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اس کام کام کا پرانا آدمی ہے۔ ماضی میں یہ دو یا تین موٹر سائیکلیں یہ رکھ کر کام کرتا تھا۔ تاہم اس بار اس نے کوئی ایسی سیٹنگ بنائی تھی کی اتنے اعتماد کے ساتھ 44 کروڑ کی گاڑیاں رکھ کر بیٹھا تھا اور اس کو یقین تھا کہ اس کو کوئی پکڑنے نہیں آئے گا ۔
دوسری جانب اس تفتیش میں اس عنصر کو بھی شامل کیا گیا ہے کہ رجسٹرڈ اور قانونی طور پر درآمد ہونے والی موٹر سائیکلیوں کے کوائف کسٹمز اپریزمنٹ کلکٹریٹس کی فائلوں سے بھی لیک کئے جاسکتے ہیں۔ جبکہ ماضی میں ایسی درجنوں ہیوی بائیکس نیلام بھی کی جا تی رہی ہیں جو اسمگل کرکے لائی گئی تھیں اور بعد ازاں ان کو صوبائی ایکسائز ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ کروایا گیا۔ تاہم حالیہ آپریشن میں پکڑی گئی موٹر سائیکلیں قانونی طور پر نیلام نہیں ہوسکتیں۔ کیونکہ یہ ٹیمپرڈ ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس وقت ملک میں دہشت گردی کے خطرات ہیں اور کئی حصوں میں حساس مقامات پر حملے ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ حساس ادارے ایسی گاڑیوں کے حوالے سے سخت مانیٹرنگ کررہے ہیں جو جعلسازی سے کوائف میں ردو بدل کرکے ملک میں چلائی جا رہی ہیں۔ کیونکہ ان کے دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہونے کے خدشات زیادہ ہیں۔