نمائندہ امت :
کراچی اور اندرون سندھ میں بی ایل اے اور دیگر کالعدم تنظمیوں کے سلیپر سیل کا تاحال مکمل خاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ دوسری جانب سی ٹی ڈی اور حساس اداروں کی جانب سے متذکرہ سلیپر سیلز کی تلاش کا عمل تیز کردیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 6 اکتوبر 2024ء کو کراچی میں جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ گارڈ روم کے قریب کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (مجید بریگیڈ) کے خودکش بمبار شاہ فہد نے بارودی مواد سے بھری گاڑی سے حملہ کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں دو چینی باشندوں سمیت تین افراد جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ واقعہ کے ایک ماہ بعد خودکش بمبار شاہ فہد کے پانچ سہولت کاروں کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا گیا، جن میں ایک عورت اور ایک نجی بینک کا ملازم بھی شامل تھا۔ اس قبل کراچی یونیورسٹی میں بھی کالعدم بی ایل اے تعلق رکھنے والی ایک عورت نے چینی باشندوں کی وین پر خودکش حملہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں کالعدم بی ایل اے کی جانب سے بم دھماکے کیے گئے۔
ان تمام دہشت گردی کے واقعات میں سی ٹی ڈی اور متعلقہ حساس اداروں کے افسران کی جانب سے ایک بات واضح طور پر سامنے آئی کہ دہشت گردوں نے کراچی اور اندرون سندھ میں سلیپر سیل بنائے ہوئے ہیں۔ اور اپنے کارندوں کو ان عارضی ٹھکانوں پر ٹھہراتے ہیں۔ اس حوالے سے نیشنل ایکشن پلان پر پولیس کارروائیاں تو کررہی ہے۔ لیکن ان کارروائیوں میں آج تک پولیس دہشت گردوں کے سلیپر سیل نہیں پکڑ سکی، جس سے پولیس اور سی ٹی ڈی کے انٹیلی جنس نیٹ ورک پر سوالیہ نشان لگتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ٹولیوں کی صورت میں کالعدم بی ایل اے، قوم پرست تنطیموں اور ٹی ٹی پی سمیت دیگر کالعدم تنظیموں کے دہشت گرد کراچی اور اندرون سندھ میں قائم سلیپر سیلوں میں موجود ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ لیاری، پاک کالونی، ڈالمیا کالونی، ملیر کھوکھراپار، ملیر سٹی، شاہ لطیف ٹائون، سکھن، بن قاسم، گلشن حدید، قائد آباد مجید کالونی، سرجانی ٹائون، سہراب گوٹھ، افغان بستی، منگھوپیر سلطان آباد اور کیماڑی میں کالعدم بی ایل اے، ٹی ٹی پی، قوم پرست تنظمیوں کے سلیپر سیل قائم ہیں۔ لیکن سی ٹی ڈی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے انٹیلی جنس ونگ کے افسران مذکورہ علاقوں میں گرینڈ آپریشن کرنے سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہے اگر انہوں نے مذکورہ علاقوں میں گرینڈ آپریشن کیا تو انتہائی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کے پوش علاقوں ڈیفنس اور کلفٹن میں بھی کالعدم تنظیموں نے بنگلے اور فلیٹس کرائے پر لے رکھے ہیں جہاں دہشت گردوں کو چھپایا جاتا ہے۔ دہشت گرد تنظمیوں کو پڑوسی ملک اور بھارت کی خفیہ ایجنسی (را) فنڈنگ کررہی ہے۔ اسی فنڈنگ سے دہشت گرد اپنے معاملات باآسانی نمٹانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کراچی میں ایئرپورٹ پر جو خودکش حملہ کیا گیا وہ گاڑی شاہ فہد نے 71 لاکھ روپے کی خریدی تھی جس میں باردو لگا کر اس نے باآسانی حملہ کیا۔ گاڑی چوری شدہ یا چھینی ہوئی نہ ہونے کے باعث شاہ فہد خودکش حملہ کرنے سے قبل تین روز تک مذکورہ ویگو جیپ میں کراچی میں گھومتا پھرتا رہا۔
ذرائع نے بتایا کہ دہشت گرد تنظمیں بھی جدید دور میں جدید منصوبہ بندی کرنے اداروں کی رٹ کو چیلنج کررہی ہیں۔ اسی لیے مرکزی ملزمان بچ نکلتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ دہشت گردی کی واقعات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ دہشت گرد لاکھوں روپے خرچ کرکے اپنے ہدف کو کامیاب بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور انہیں سب سے زیادہ فنڈنگ بھارت اور پڑوسی ملک سے کی جارہی ہے۔ اس میں حوالہ ہنڈی کا کام کرنے والے والے بھی ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ جبکہ تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کراچی کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز، مہمانوں کا ریکارڈ نہیں رکھتے۔
اس حوالے سے ایس آئی یو کے ایس ایس پی شعیب میمن نے میڈیا کو بتایا تھا کہ کراچی میں 100 سے زائد مسافر ہوٹلز اور گیسٹ ہائوسز کی چھان بین کے دوران معلوم ہوا کہ 67 گیسٹ ہائوسز اور ہوٹل، ٹورازم ڈپارٹمنٹ میں غیر رجسٹرڈ پائے گئے۔ جانچ کے دوران ہوٹلوں سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی بھی پکڑے گئے، جن میں ایرانی اور افغان باشندے شامل ہیں۔ جبکہ بہت سے ہوٹلز اور گیسٹ ہائوسز میں مہمانوں کا ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے۔ ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز کو فراہم کردہ ’ہوٹل آئی‘ سافٹ ویئر میں بھی مہمانوں کی معلومات مکمل طور پرتحریر نہیں کی جاتیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ پچاس سے زائد مسافر ہوٹل ایسے بھی سامنے آئے کہ جو ’ہوٹل آئی‘ سوفٹ ویئر کا استعمال ہی نہیں کرتے۔ ان ہوٹلز اور گیسٹ ہائوسز میں شراب ، منشیات اور ڈانس پارٹیوں کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ ایس ایس پی ایس آئی یو شعیب میمن نے 70 گیسٹ ہائوسز اور ہوٹلز کے خلاف کارروائی کی سفارش کر رکھی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سب سے زیادہ ڈیفنس اور کلفٹن میں قائم بنگلوں کو گیسٹ ہائوسز کے لئے استعمال کیاجاتا ہے جس کی معلومات صرف علاقہ پولیس رکھتی ہے۔ لیکن وہ بھاری ’’نذرانے‘‘ کی وجہ سے ان گیسٹ ہائوسز کو ظاہر نہیں کرتی۔ انھیں خفیہ ر کھ کر اپنی کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔
سلیپر سیلزکے حوالے سے جب ’’امت‘‘ کی جانب سے پولیس اور متعلقہ اداروں کے افسران سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کراچی ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی والا شہر ہے جس میں دو سو سے زائد تو صرف کچی آبادیا ں ہیں۔ ادارے کچی آبادیوں میں باآسانی کومبنگ آپریشن کرلیتے ہیں۔ لیکن پوش علاقوں میں سرچ یا کومبنگ آپریشن نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ کہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں نے پوش علاقوں میں زیادہ سلیپر سیل بنائے ہوئے ہیں اور انہی علاقوں میں چائنیز اوردیگر غیر ملکی افراد رہائش پذیر ہیں۔ ان ذرائع نے مزید بتایا کہ ادارے انٹیلی جنس انفارمیشن پر کام کررہے ہیں اور جلد سے جلد تمام سلیپر سیلوں کا خاتمہ کریں گے۔ جبکہ چند سلیپر سیلز کی نشاندہی بھی ہوئی جن کی نگرانی کی جارہی ہے۔