سرکاری اسکولوں کا کوئی پرسان حال نہیں- کیسے معاہدہ کرلیں،ترجمان جے یو آئی، فائل فوٹو
 سرکاری اسکولوں کا کوئی پرسان حال نہیں- کیسے معاہدہ کرلیں،ترجمان جے یو آئی، فائل فوٹو

مدارس بل پر علما تقسیم کیوں؟

محمد اطہرفاروقی:
مدارس بل کے معاملے پر حکومت اور جے یو آئی (ف) کے مابین تنازعہ تاحال حل نہیں ہو سکا ہے۔ واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ مدارس کیلئے وزارت تعلیم میں ڈائریکٹوریٹ کا قیام وفاق المدارس کو قبول نہیں۔ یہ ایک طرح سے مدارس کی خودمختاری کا خاتمہ ہوگا۔ دوسری جانب جامعۃ الرشید کے بورڈ مجمع العلوم الاسلامیہ نے وزارت تعلیم کے تحت اپنے مدارس رجسٹرڈ کرلئے۔ جس سے اس کو نقصان کے بجائے فائدہ ہوا۔ ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں جے یو آئی اور جامعۃ الرشید دونوں کے رہنمائوں سے بات چیت کی ہے۔

جامعۃ الرشید کے ذمہ دار مولانا عثمان یوسف نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 29 اگست 2019ء میں معاہدہ ہوا کہ تمام مدارس وزارت تعلیم سے منسلک ہوں گے۔ مدارس کے بینک اکائونٹ کھلوانے، رجسٹریشن، غیر ملکی طلبی کے ویزے بھی جاری کرنے کا کہا گیا تھا۔ جب سے یہ معاہدہ ہوا ہے۔ اس کے تحت تمام کام کیے جا رہے ہیں۔

مدارس کی رجسٹریشن ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ریلیجیس ایجوکیشن (ڈی جی آر اے) جو وزارت تعلیم کے ماتحت ہے، اس کے تحت بغیر کسی فیس اور کسی بھی مسئلے کے با آسانی کی جا رہی ہے۔ مدارس میں پڑھنے والے غیر ملکی طلبا کو ویزہ بھی دیا جا رہا ہے۔ مدارس کے بینک اکائونٹ اور ٹیکنیکل مہارت بھی طلبا کو مل رہی ہے‘‘۔ ایک سوال پر مولانا عثمان نے بتایا ’’وزارت تعلیم کی طرف سے کسی بھی سلیبس میں کوئی مداخلت نہیں کی جا رہی۔ دینی تعلیم کے ساتھ بچوں کو عصری تعلیم بھی دی جارہی ہے۔ جس پر ہم مطمئن ہیں۔

مدارس کے بچوں کو عصری تعلیم دینے کیلئے ڈی جی آر اے کے اس وقت 12 سو سے زائد اساتذہ موجود ہیں۔ جن کی تنخواہ بھی وزارت تعلیم خود برادشت کرتی ہے۔ جبکہ عصری تعلیم حاصل کرنے والے مدارس کے بچوں کو کتابوں کی فراہمی بھی مفت کی جا رہی ہے۔ اس وقت تقریباً ایک لاکھ طلبا کو وزرات تعلیم کی جانب سے عصری تعلیم کی کتابیں فراہم کی جاچکی ہیں‘‘۔ مولانا عثمان یوسف نے کہا کہ 2019ء کے معاہدے کے بعد سے مدارس کو یہ تمام تر سہولیات فراہم کی گئیں۔

مذکورہ عرصے میں مدارس اور طلبا کو وزارت تعلیم سے فائدہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں وظائف بھی دیئے گئے۔ تو کوئی بھی ایسی وجہ نہیں، جس کی وجہ سے ہم وزارت تعلیم سے نکلیں۔ انہوں نے بتایا کہ مدارس میں بھی تعلیم دی جاتی ہے اور یہ تعلیمی ادارے ہیں۔ پورے ملک کے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں وزارت تعلیم کے ماتحت ہیں تو مدارس بھی تعلیمی ادارے ہیں۔ انہیں بھی وزارت تعلیم کے ماتحت ہونا چاہیے نہ کہ وزارت صنعت کے ماتحت۔

انہوں نے کہا کہ معاہدے کے تحت آڈٹ کا کہا گیا تھا۔ جس کے بعد ہمارے مدارس کے جنرل آڈٹ ہو رہے ہیں۔ وہ مدارس کی بھی ضرورت ہے۔ اکائونٹس کی اور بینک کی بھی ضرورت ہے۔ تاہم جو افراد سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کی بات کر رہے تو وہاں ہر صورت ہر سال آڈٹ لازم ہوگا۔ جب تک آڈٹ نہیں ہوگا رجسٹریشن نہیں ہوگی۔ ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا ’’جے یو آئی یا دیگر افراد وزارت تعلیم کے ماتحت نہیں ہونا چاہتے تو اس کی وجہ وہی بتا سکتے ہیں۔ البتہ اس میں ایک راستہ یہ نکل سکتا ہے کہ حکومت ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ریلیجیس ایجوکیشن (ڈی جی آر اے) اور سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ دونوں کو مان لیں۔ اس کے بعد مدارس کو اپنے فیصلے پر چھوڑ دیا جائے۔ جن کو جس طرف آسانی ہو وہ مدارس اسے طرف چلے جائیں۔ لیکن یہاں سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ میں تقریبا 8 سے 10 لاکھ سالانہ رجسٹریشن فیس ہوگی۔ اس کے برعکس وزارت تعلیم میں ایسا کچھ نہیں‘‘۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی ترجمان اسلم غوری کا کہنا ہے کہ کہ ’’وفاق المدارس کو وزارت تعلیم کے تحت نہ کرنے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔ کراچی میں اردو یونیورسٹی کا حال دیکھ لیں۔ وہاں کے اساتذہ اپنی تنخواہ کیلئے آئے روز احتجاج پر ہوتے ہیں۔ سندھ کے سرکاری اسکولوں کا حال بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ سرکاری اسکولوں کو وڈیرے اپنے جانور باندھنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔

کراچی کے سرکاری اسکولوں میں کہیں فرنیچر نہیں تو کہیں پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں۔ یہ کارکردگی ہے وزارت تعلیم کی۔ پنجاب کی بات کی جائے تو وہاں سرکاری اسکولوں کو پرائیویٹ کرنے جا رہے ہیں۔ جس پر تمام سرکاری اساتذہ احتجاج کر رہے ہیں۔ ایسے نظام تعلیم اور وزارت تعلیم کے تحت مدارس کو کیسے کیا جائے۔ جو مدارس ان سے مطمئن ہیں، وہ ان کا اپنا فیصلہ ہے‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔