صوبائی حکومت نے بلدیہ فیکٹری میں 259 افراد کو زندہ جلانے کے مرکزی ملزم کی واپسی کی ذمہ داری وفاق پر ڈال دی-
صوبائی حکومت نے بلدیہ فیکٹری میں 259 افراد کو زندہ جلانے کے مرکزی ملزم کی واپسی کی ذمہ داری وفاق پر ڈال دی-

حماد صدیقی کو وطن واپس لانے کی امیدیں ماند

سید حسن شاہ :
بلدیہ فیکٹری میں 259 افراد کو زندہ جلانے کے کیس کے مرکزی ملزم متحدہ کی کراچی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کو گرفتار کرکے بیرون ملک سے وطن واپس لانے کی امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود حماد صدیقی کی وطن واپسی کے معاملے پر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ہائی کورٹ میں گزشتہ سماعت کے دوران ڈپٹی پروٹوکول افسر نے حماد صدیقی کے کیس سے لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ صوبائی حکومت نے حماد صدیقی کی وطن واپسی کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈال دی۔ سندھ ہائی کورٹ نے حماد صدیقی سمیت دیگر بیرون ممالک فرار ملزمان کی عدم گرفتاری سے متعلق وزارت خارجہ اور داخلہ سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

واضح رہے کہ 11 ستمبر 2012ء کو علی انٹرپرائزز بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتشزدگی سے 259 افراد جل کر جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ فیکٹری مالکان کی جانب سے بھتہ نہ دینے پر متحدہ کی کراچی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کے احکامات پر فیکٹری کو آگ لگائی گئی تھی۔ مذکورہ کیس انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں زیر سماعت رہا۔

عدالت نے ستمبر 2020ء میں فیصلہ سناتے ہوئے ایم کیو ایم کے سابق سیکٹر انچارج عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت سنائی تھی۔ جبکہ فیکٹری ملازم ملزم شاہ رخ، فضل، ارشد محمود اور علی محمد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس فیصلے کے بعد ملزمان نے سزاؤں کے خلاف اور سرکار نے چار ملزمان کی بریت کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ نے ستمبر 2023 میں ان پیلوں پر فیصلہ سنایا۔

ہائی کورٹ نے ملزمان عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا کی سزائے موت کے خلاف اپیلیں مسترد کرکے پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔ جبکہ عمر قید پانے والے شاہ رخ ، ارشد محمود سمیت چار ملزمان کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے بری کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی قرار دیا کہ اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ہزار سے زائد مزدوروں کی فیکٹری کو جلانے کا اتنا سنگین فیصلہ ایم کیو ایم کی اعلیٰ ترین قیادت کی منظوری کے بغیر کیا گیا ہو۔

پولیس نے تفتیش میں اس اہم زاویے کو نظر انداز کیا۔ کراچی تنظیمی کمیٹی کے ارکان سے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ حماد صدیقی ایک اشتہاری مجرم اور 10 سال سے زائد عرصہ سے بیرون ملک فرار ہے۔ مگر اسے واپس نہیں لایا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے حماد صدیقی کو وطن واپس لانے سے متعلق اقدامات کے حوالے سے رپورٹ بھی طلب کی گئی۔ جس پر پولیس حکام کی جانب سے مفرور و اشتہاری ملزمان کی رپورٹ جمع کراتے ہوئے بتایا گیا کہ سندھ بھر سے 50 ہزار سے زائد ملزمان اشتہاری و مفرور ہیں۔ جبکہ بانی متحدہ الطاف حسین اور حماد صدیقی سمیت 8 ملزمان لندن، جرمنی، دبئی اور سعودیہ مفرور ہیں۔ پولیس کی رپورٹ پر سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان کی وطن واپسی کے اقدامات کرنے، ان کے شناختی کارڈ، بینک اکاؤنٹس اور پاسپورٹس بھی بلاک کرنے کے احکامات دیئے تھے۔ تاہم ایک سال گزرنے کے باوجود ملزمان کی وطن واپسی کے معاملے میں پیش رفت نہ ہوسکی۔ عدالتی احکامات کے باوجود حکومتی ادارے سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مرکزی کردار حماد صدیقی کو وطن واپس لانے میں ناکام ہے۔ صوبائی حکومت نے حماد صدیقی کی وطن واپسی کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈال دی ہے۔

علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بلدیہ کیس میں مفرور ملزم حماد صدیقی کی عدم گرفتاری پر برہمی کا اظہار کیا۔ سماعت کے دوران ڈپٹی پروٹوکول افسر کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ ’مجھے حماد صدیقی کے کیس کے بارے میں علم نہیں‘۔ دوران سماعت عدالت نے ڈپٹی پروٹوکول افسر کی سرزنش کی۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے مؤقف اختیار کیا کہ مفرور ملزمان کو وطن واپس لانے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے۔

سماعت کے دوران عدالت نے سانحہ بلدیہ کیس میں مفرور ملزم حماد صدیقی کی تاحال عدم گرفتاری پر برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس کریم خان آغا نے ریمارکس میں کہا کہ ملزم حماد صدیقی کو گرفتار کرکے وطن واپس کیوں نہیں لایا جاسکا۔ ایسے شخص کی کون پشت پناہی کر رہا ہے، جس پر سنگین نوعیت کے الزامات ہیں۔ ملزم حماد صدیقی کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟ یہ وزارت داخلہ کی نااہلی ہے کہ مفرور ملزمان کو گرفتار کرکے واپس نہیں لایا جاتا۔ عدالت نے مفرور ملزم حماد صدیقی سمیت دیگر کی عدم گرفتاری پر وزارت داخلہ، وزارت خارجہ سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو 17 دسمبر کو طلب کرلیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔