نمائندہ امت:
بلوچستان کے ضلع بولان کے دور افتادہ علاقے میں منگل کے روز جعفر ایکسپریس کے سینکڑوں مسافروں کو یرغمال بنانے والے بی ایل اے دہشت گردوں کے ساتھ ٹرین کی حفاظت کیلئے مٹھی بھر اہلکار تعینات تھے، جنہوں نے بلوچستان لبریشن آرمی کے درجنوں مسلح دہشت گردوں کے ساتھ انتہائی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ وہ اس وقت تک لڑتے رہے ، جب تک کہ ان کے پاس محدود ایمونیشن ختم نہیں ہوگیا۔ تاہم تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی اس جھڑپ کے بعد جب ان کی رائفلوں میں گولیاں ختم ہوگئیں تو پہاڑوں پر موجود ٹرین پر حملہ آور دہشت گرد نیچے اتر آئے اور انہوں نے ٹرین کے مسافروں کو یرغمال بنالیا۔
واضح رہے کہ جعفر ایکسپریس میں چار سو سے زائد مسافر تھے۔ ٹرین جب ایک ایسے مقام پر پہنچی جہاں چاروں طرف سنگلاخ پہاڑ اور ٹنل تھیں تو پہلے بم دھماکے کے ذریعے پٹری کو اڑایا گیا اور پھر پہاڑوں پر موجود درجنوں دہشت گردوں نے ٹرین پر راکٹ لانچروں سے حملہ کیا اور شدید فائرنگ کی۔ اس موقع پر ٹرین کی حفاظت پر مامور پانچ پولیس اہلکاروں اور دو ایف سی کے جوانوں نے جوابی فائرنگ کی۔ تاہم ان اہلکاروں کے مقابلے میں دہشت گردوں کے پاس کہیں بڑی مقدار میں جدید اسلحہ تھا اور ان کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ اہلکار اس وقت تک مقابلہ کرتے رہے اور انہوں نے دہشت گردوں کو ٹرین کے نزدیک آنے سے روکا، جب تک ان کے پاس گولیاں ختم نہ ہوئیں۔ گولیاں ختم ہونے کے بعد جب ٹرین میں موجود اہلکاروں کی طرف سے جواب دینے کا سلسلہ رک گیا تو دہشت گرد سمجھ گئے کہ اہلکاروں کے پاس گولیاں ختم ہوگئی ہیں، جس کے بعد درجنوں مسلح دہشت گرد پہاڑوں سے اتر آئے اور ٹرین کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔
اس کے بعد ٹرین میں شناخت کا عمل شروع ہوا اور شناخت کے بعد مسافروں کی الگ الگ ٹولیاں بنائی جانے لگیں۔ یہ ساری روداد دہشت گردوں کے ساتھ بہادری سے مقابلہ کرنے والے سات اہلکاروں میں سے ایک نے بی بی سی اردو کو بھی بتائی ہے۔ یہ بہادر اہلکار اے ایس آئی ہے۔ تاہم سیکورٹی وجوہات کی بنا پر نام ظاہر نہیں کیا جارہا ہے۔ ’’امت‘‘ نے اس بات کی تصدیق کی کہ اگر اہلکاروں کے پاس زیادہ مقدار میں ایمونیشن ہوتا تو دہشت گردوں کو زیادہ دیر تک ٹرین کے پاس آنے سے روکا جا سکتا تھا، تاوقیکہ سیکیورٹی فورسز کی کمک نہ پہنچ جاتی۔
سب سے اہم مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ٹرین پر ایک ایسے دور افتادہ مقام پر حملہ کیا گیا، جہاں موبائل ٹیلی فون کے سگنل دستیاب نہیں تھے۔ بصورت دیگر جتنے وقت تک سیکورٹی اہلکاروں نے دہشت گردوں کو ٹرین کے پاس آنے سے روکا، تب تک سیکورٹی حکام کو بروقت آگاہ کرکے کمک منگوائی جاسکتی تھی۔ اس کے برعکس دہشت گردوں کے پاس سیٹلائٹ فونز تھے، جن کے ذریعے وہ ملک و بیرون ملک اپنے ہینڈلرز کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق دہشت گرد افغانستان میں موجود اپنے ہینڈلرز سے ہدایات لے رہے تھے۔
بدھ کی شام اس رپورٹ کے فائل کرتے وقت دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری تھا۔ سیکورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو یرغمال بنانے والے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ جبکہ موقع پر موجود تمام حملہ آوروں کو مار دیا گیا تھا۔ اس دوران دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بننے والے شہید مسافروں کی تعداد کا تعین کیا جارہا تھا۔ اس سے قبل بتایا گیا کہ خواتین اور بچوں سمیت مسافروں کی بڑی تعداد کو بازیاب کرایا جا چکا تھا۔
الجزیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں سیکورٹی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی طور پر ٹرین ڈرائیور سمیت دس مسافروں کی شہادت کی تصدیق ہوئی۔ تاہم فوری طور پر شہادتوں کی حتمی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ پاک فوج کے جوانوں نے ریلوے حکام کے ساتھ مل کر بازیاب ہونے والے مسافروں کو مچھ ریلوے اسٹیشن پہنچادیا تھا۔ یہ ریلوے اسٹیشن حملے کے مقام سے نوے کلومیٹر دور ہے۔
مسافروں کو مچھ ریلوے اسٹیشن پہنچانے کیلئے خصوصی مال بردار ٹرین استعمال کی گئی۔ دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہونے والے ٹرین کے پچاس سالہ ڈرائیور کا نام امجد یاسین ہے۔ ان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ پہاڑوں سے دہشت گردوں کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ کا نشانہ بنے۔ امجد یاسین کے چھوٹے بھائی عامر یاسین نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی کی موت کے حوالے سے مختلف رپورٹس آرہی ہیں۔ لیکن جب تک وہ اپنی آنکھوں سے ان کی لاش نہیں دیکھ لیتے، کیسے یقین کر سکتے ہیں؟
ریلوے اہلکار غلام محمد سومرو نے بتایا کہ دو زخمی ریلوے پولیس اہلکاروں سمیت سولہ مسافروں کو ابتدائی طور پر مچھ ریلوے اسٹیشن پہنچایا گیا تھا، جنہیں کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔ بدقسمت ٹرین میں سفر کرنے والے ریلوے کے ایک اور ملازم محمد عابد کے بقول یہ ان کی زندگی کا سب سے ہولناک دن تھا۔ انہوں نے بتایا ’’ہم جعفر ایکسپریس کے ایک کمپارٹمنٹ میں بیٹھے تھے کہ ایک زوردار دھماکے کے ذریعے ٹرین کو نشانہ بنایا گیا اور پھر شدید فائرنگ شروع ہوگئی۔ ہم دوسرے مسافروں کے ساتھ واش رومز میں چھپ گئے۔ لیکن ٹرین میں داخل ہونے والے دہشت گردوں نے ہمیں ڈھونڈ لیا اور ٹرین سے نیچے اتار دیا۔
ہمارے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد دہشت گردوں نے ہمیں ٹریک پر دوڑنے کو کہا‘‘۔ ایک اڑسٹھ سالہ مسافر محمد اشرف نے، جو اپنی بیٹی سے ملنے پنجاب کے شہر حافظ آباد جارہے تھے، بتایا کہ انہوں نے پنیر ریلوے اسٹیشن سے ٹرین کے روانہ ہونے کے فوری بعد ایک دھماکے کی آواز سنی، جس کے بعد شدید فائرنگ شروع ہوگئی۔ جب فائرنگ رکی تو دہشت گرد ٹرین میں داخل ہوگئے اور انہوں نے مسافروں کو ساڑھے تین گھنٹے تک پٹریوں پر چلایا۔
جعفر ایکسپریس منگل کی صبح نو بجے کوئٹہ سے روانہ ہوئی تھی۔ اسے پشاور پہنچنا تھا۔ اس سفر میں بذریعہ پنجاب تیس گھنٹے تک لگتے ہیں۔ ریلوے حکام کے بقول حملہ تقریباً دوپہر ایک بجے اس وقت ہوا، جب ٹرین بولان کے پہاڑی اور ناہموار راستوں سے گزر رہی تھی۔ اس علاقے میں کئی ٹنلز (سرنگیں) ہیں، جو برطانوی نوآبادیاتی دور میں تعمیر کی گئی تھیں۔