محمد قاسم :
پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجر ین کے خلاف آپریشن کیلئے حکمت عملی طے کر لی گئی۔ جبکہ سرکاری و غیر سرکاری سکولوں میں افغان بچوں کو داخلہ نہ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
افغان مہاجرین کی اپنے وطن باعزت واپسی کیلئے مختلف مراحل میں کام جاری ہے۔ جبکہ افغان مہاجرین کو کیمپوں میں رکھنے کیلئے مقامات بھی مختص کرلئے گئے۔31 مارچ کے بعد وطن واپس نہ جانے والوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق غیر قانونی غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے خلاف گرینڈ آپریشن 31مارچ کے بعد شروع کرنے کیلئے حکمت عملی طے کر لی گئی ہے۔ پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں اس حوالے سے پولیس نے باقاعدہ چھان بین کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ جبکہ بلدیاتی نمائندوں سمیت عوامی و سماجی حلقوں سے بھی تعاون کی درخواست کی ہے۔
ذرائع کے بقول پولیس تھانوں سے ریکارڈ حاصل کیا جارہا ہے، جس میں کرایہ داروں سمیت گھروں کے مالکان کا بھی تمام ریکارڈ چیک کیا جائے گا۔ اگر افغان باشندے کسی کے گھر کرائے پر مقیم ہیں تو ان کو فوری طور پر گھر خالی کرانے کی ہدایت کی جائے گی۔ جبکہ مالکان کی جانب سے اگر پولیس کے ساتھ تعاون نہ کیا گیا تو افغان کرایہ داروں سمیت مالکان کے خلاف بھی کارروائی کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ افغان کالونی سمیت ابدرہ، بورڈ، زرگرآباد سمیت کارخانو کے علاقوں میں بڑی تعداد افغانوں کی اس وقت بھی موجود ہے۔
جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبے میں ضم کئے جانے والے قبائلی اضلاع میں ایک بڑی تعداد افغانوں کی موجود ہے جن کی وہاں پر رشتہ داریاں اور دوستیاں بھی ہیں جس میں ضلع مہمند، باجوڑ، ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل و جمرود سرفہرست ہیں جہاں پر افغانوں کے کاروبار بھی ہیں اور ایسی اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ اب تک وہاں سے افغانوں سے اپنے ملک جانے کیلئے تیاری شروع نہیں کی۔ جبکہ پشاور سے بھی کچھ اطلاعات ایسی موصول ہوئی ہیں کہ صوبائی دارالحکومت میں بھی افغان اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس امید پر ہیں کہ ان کو حکومت پاکستان کی جانب سے دوبارہ وقت دیا جائے گا۔ تاہم حکومت پاکستان نے اس مرتبہ کسی صورت افغانوں کو اضافی ٹائم نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 31 مارچ کی تاریخ کے بعد اپنے وطن نہ جانے والوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور کے مضافاتی علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر افغان مہاجرین موجود ہیں جس میں بڈ ھ بیر، سنگو، شیخان، چمکنی، ناصر پور، لالہ کلے اور اکبر پورہ کے علاقے شامل ہیں جہاں پر افغان خاندان عرصہ دراز سے کاروبار کر رہے ہیں اور تا حال موجود ہیں۔ دوسری جانب سرکاری و غیر اسرکاری سکولو ں میں داخلہ مہم کا آغاز ہو جانے پر افغان بچوں کو کسی بھی سرکاری و غیرسرکاری سکولوں میں داخلے نہ دینے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ جبکہ اس سلسلے میں سکولوں کی انتظامیہ باقاعدگی کے ساتھ بچوں کے فارم (ب) چیک کر رہی ہے اور ساتھ ہی والدین کے قومی شناختی کارڈ بھی دیکھے جارہے ہیں اور ان کے بغیر کسی بھی بچے کو داخلہ نہیں دیا جا رہا اور بعض سکولوں کے باہر پوسٹرز آویزاں کئے گئے ہیں کہ فارم (ب) کے بغیر داخلہ نہیں دیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کو اپنے وطن باعزت واپس بجھوانے کے لئے مختلف مراحل پر کام جاری ہے اور پشاور کے مختلف مقامات پر مقررہ تاریخ گزر جانے کے بعد کریک ڈائون کا بھی امکان ہے جس کا تمام ریکارڈ پولیس کے پاس موجود ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ملنے والی ڈیڈ لائن کے بعد پشاور کے علاوہ سوات، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان سمیت دیگر اضلاع سے بڑے پیمانے پر افغانوں نے اپنے وطن کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے ادویات کے لئے پشاور کی میڈیسن مارکیٹوں کا رخ کیا ہے اور ایک ساتھ بہت ساری ادویات بھی خرید رہے ہیں۔
افغانستان جانے والے ایک شخص عبد اللہ افغانی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ گردوں کی بیماری میں مبتلا ہے اور حکومت پاکستان نے 31 مارچ تک وطن واپس جانے کی تاریخ دی ہیل۔ انہوں نے تمام تیاری مکمل کرلی ہے تاہم جو ادویات یہاں پشاور میں مل رہی ہیں ان کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں ان ادویات کی قلت نہ ہو۔ اس لئے ایک ساتھ بہت ساری ادویات خرید رہے ہیں تاکہ وہاں پر ان کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی طرح ڈبگری گارڈن سمیت دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر افغان باشندوں نے چیک اپ کیلئے ڈاکٹروں سے رجوع کرنا شروع کر دیا ہے ان میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے اور مختلف قسم کے ٹیسٹ وغیرہ بھی کرا رہے ہیں۔