محمد قاسم :
پشاورکے مضافاتی علاقوں سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں افغان مہاجرین نے جہاں دیگر کاروبار میں سرمایہ کاری کی۔ وہیں مختلف پھلوں کے باغات بھی اجارہ پر حاصل کیے جس سے ان کو ہر سال لاکھوں روپے کا منافع پہنچتا رہا۔ جبکہ ان کے باغات میں محنت مزدوری کرنے والے افراد کے گھروں کے چولہے بھی جلتے رہے۔ تاہم افغان مہاجرین کو وطن واپس جانے کی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد جہاں صوبے سے آہستہ آہستہ افغانوں نے اپنا کاروبار سمیٹنا شروع کر دیا۔ وہیں اب افغان مہاجرین کو ان پھلوں کے باغات کی فروخت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جو انہوں نے تین سے پانچ برس کی مدت کیلئے اجارہ پر لیے تھے۔
جبکہ کچھ افغان سرمایہ کار ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس سے بھی زیادہ مدت کیلئے زمینیں لی تھیں اور ان پر مختلف فصلوں سمیت باغات اگائے تھے۔ بعض افغان مہاجرین نے پھلوں کی پیکنگ کیلئے مختلف سامان فروخت کرنے کیلئے دکانیں بھی کرائے پر حاصل کی تھیں اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے بڑے کارخانوں کے ساتھ کاروبار کر رہے تھے۔ تاہم اب ان افغانوں کو اپنے ملک واپس جانا ہے۔ تاہم ان کو اپنی زمینیں و باغات دوسرے افراد کے سپرد کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ ذرائع کے بقول ان کو وہ ریٹ نہیں مل رہے، جس کی وہ امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مالکان کو زمینیں واپس کرنے پر بھی ریٹ کم ہی ملنے کی آفر ہوئی ہے۔ اسی لئے معلوم ہوا ہے کہ ان افغان مہاجرین نے تیار باغات کی فروخت کیلئے بیوپاریوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں تاکہ انہیں اچھے دام مل سکیں۔
پشاور سے لگ بھگ 14 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اکبر پورہ گائوں کے ایک رہائشی زمان خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کے ساتھ دو سے تین افغان مہاجرین نے تیار باغات فروخت کرنے کیلئے رابطے کیے ہیں۔ تاہم وہ اس کاروبار میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ کیونکہ اگر طوفانی بارشیں ہو گئیں یا اولے پڑ ے تو تیار باغات تباہ ہوجاتے ہیں۔ جس سے بہت بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ماضی میں ان کے ساتھ اس طرح ہو چکا ہے۔ اس لئے وہ اس کاروبار میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ تاہم زمان خان کے مطابق چونکہ آلوبخارہ، لوکاٹ، خوبانی اور آڑو کے باغات دو سے تین ماہ میں تیار ہو جائیں گے۔ اسی لئے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو سستے داموں اگر ان کو باغات مل جائیں تو خرید لیں گے۔
ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ کچھ بیوپاریوں نے اپنے کمیشن کیلئے کئی باغات کا سودا کروا بھی لیا ہے اور کئی سے رابطے بھی جاری ہیں۔ دوسری جانب صوبے سے افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی واپسی کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میںجاری ہونے والے اعداد و شمار اور ذرائع کے مطابق صوبے سے پہلی مرتبہ 41 افغان سٹیزن ہولڈرز پاک افغان سرحدی گزر گاہ طورخم کے راستے افغانستان لوٹ گئے۔ اس کے ساتھ ہی گزشتہ 24 گھنٹوں میں 601 افغان سٹیزن کارڈ ہولڈز وطن لوٹ چکے ہیں۔ جبکہ ملک سے غیر قانونی افغان شہریوں کی واپسی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اب تک 2 ہزار 454 سے زائد غیر قانونی باشندے اپنے وطن افغانستان لوٹ چکے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پنجاب کے مختلف شہروں سے گرفتار 1322 غیر قانونی مقیم افغانوں کو سیدھا طورخم منتقل کردیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر سے گرفتار 48 افغان اور پشاور جمعہ خان کالونی ٹرانزٹ کیمپ سے بھی 83 غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ٹرانزٹ کیمپ آنے والوں میں 1232 افراد غیرقانونی رہائشی تھے۔ جبکہ 1830 افراد اے سی سی کارڈ ہولڈرز تھے۔ واضح رہے کہ یکم اپریل سے لے کر اب تک 20 ہزار 124 غیر قانونی غیر ملکی افراد کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ 17 ستمبر 2023ء سے 31 مارچ 2025ء تک مجموعی طور پر 70 ہزار 494 افغان خاندان اپنے ملک لوٹ گئے ہیں۔ یہ افغان خاندان کل 4 لاکھ 69 ہزار 159 افراد پر مشتمل تھے۔ پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع سے موصول ہونے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے حکومت اور انتظامیہ متحرک ہے۔ جبکہ پولیس نے بھی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔