فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغان تاجروں کی واپسی سے بیروزگاری میں اضافہ

محمد قاسم :

صوبائی دارالحکومت پشاور سے بڑے افغان تاجروں کی واپسی کے بعد نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہو گئی ہے۔ کیونکہ افغان تاجروں نے شہر کے مختلف علاقوں میں بڑے بڑے کاروبار شروع کر رکھے تھے۔ جس میں قالین اور کارپٹ کی بڑی دکانوں اور مارکیٹوں سمیت ہوٹل، ٹیلرنگ، ملبوسات، جوتوں کی دکانوں کے علاوہ مختلف اشیائے خورونوش کی دکانیں بھی شامل تھیں۔ ایک ایک دکان سے پانچ سے دس افراد کا روزگار وابستہ تھا۔ اب یہ افرادگھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ جبکہ بڑے کاروباری مراکز میں درجنوں ملازمین کے گھروں کا چولہا بھی ٹھنڈا ہوگیا ہے۔

پشاور کے علاقے کوہاٹی میں قالین کا کاروبار کرنے والے افغان تاجر کے ملازم محمد نعمان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افغان تاجر کی دکان کے علاوہ گودام میں پانچ افراد کام کر رہے تھے۔ جن کی ماہانہ تنخواہ سے ان کے گھر کا خرچہ پورا ہو رہا تھا۔ تاہم اب کاروبار بند ہو گیا ہے اور وہ بیروزگار ہو کر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ مالک دکان میں ماہانہ تنخواہ کے علاوہ قالین گھروں میں پہنچانے کیلئے بھی الگ سے پیسے دیتا تھا اور ایسے کاریگر بھی تھے، جو قالین گھروں میں پہنچا کر باقاعدہ کمروں میں بچھاتے تھے اور اس کی الگ سے مزدوری ان کو مل جاتی تھی۔ جبکہ ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی موجود تھا۔ لیکن اب مجھ سمیت بیشتر نوجوان بیروزگار ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں اور دوسری جگہ کام ڈھونڈ رہے ہیں۔

اسی طرح پشاور کے معروف ترین تجارتی مرکز ابدرہ، یونیورسٹی اور پشاور صدر میں ملبوسات کی بڑی مارکیٹوں میں بھی افغان تاجروں نے کاروبار ختم کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے بھی درجنوں ملازمین بیروزگار ہوئے ہیں۔ ابدرہ میں کام کرنے والے ایک نوجوان سمیع اللہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ ملبوسات کے ایک بڑے تاجر کے ساتھ کام کر رہے تھے اور بہت زیادہ تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ لیکن اب چونکہ افغان مہاجر واپس جارہے ہیں۔ اس لئے انہوں نے پشاور صدر میں ملبوسات کے بڑے تاجروں سے رابطے شروع کر دیئے ہیں تاکہ ان کو کوئی کام مل سکے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ فی الحال شادی بیاہ کا سیزن نہیں، اس لئے کام نہیں رہا۔ بیشتر تاجروں نے جواب دیا ہے کہ اکتوبر کے مہینے میں ان کے ساتھ رابطہ کیا جائے۔ کیونکہ نومبر سے شادی بیاہ کا سیزن شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح بیشتر افغان باورچی بھی اپنے وطن واپس چلے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے پشاور میں مختلف تقریبات کے موقع پر افغان پلائو تیار کرنے والے باورچیوں کی بھی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

پشاور کے شہری افغان پلائو کے عادی ہو چکے ہیں اور ہر تقریب میں خاص کر افغان پلائو تیار کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب چونکہ افغان باورچی واپس جارہے ہیں تو شادی بیاہ کے علاوہ ہوٹلوں میں بھی افغان کاریگروں کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ افغان کاریگر کم اجرت پر بھی کام کر رہے تھے۔ اب ان کے واپس جانے کے بعد پاکستانی کاریگروں کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ذرائع کے مطابق ان مقامی کاریگروں نے اجرت بھی زیادہ مانگنا شروع کر دی ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ گھروں کی تعمیر میں دیہاڑی دار افغان مزدور آٹھ گھنٹے کے 1000 روپے تک وصول کر رہا تھا۔ جبکہ پاکستانی محنت کش ایک ہزار کے بجائے 1500 روپے کی ڈیمانڈ کر رہا ہے۔ اسی طرح افغان مستری جو گھروں کی تعمیر اور نقشہ جات وغیرہ پر کام کرنے کا تجربہ رکھتے تھے، وہ آٹھ گھنٹے کی اجرت کے 2 ہزار روپے وصول کرتے تھے۔ جبکہ پاکستانی مستری، کاریگر اور استاد آٹھ گھنٹوں کے 3 ہزار ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ جبکہ ٹھیکے پر کام لینے کے اس سے بھی ڈبل پیسے وصول کیے جارہے ہیں۔

واضح رہے کہ گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی پشاور سمیت صوبہ بھر میں لوگ تعمیراتی کام کا آغاز کرتے ہیں۔ چونکہ اس موسم میں دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوتی ہیں اور شدید دھوپ کی وجہ سے گھروں سمیت دیگر عمارتوں کا مٹیریل بھی جلد تیار ہو جاتا ہے، لوگ زیادہ کام کرواتے ہیں۔ تاہم افغان کاریگروں، مستریوں، دیہاڑی دار مزدوروں کی واپسی کے بعد پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں دیہاڑی دار مزدوری کی کمی کا بھی سامنا ہونے کی اطلاعات ہیں اور اسی کمی کے سبب اجرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔