فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں کالے قانون کے بعد مساجد ،درگاہیں مودی سرکار کے نشانے پر

امت رپورٹ :
پہلی قسط
بھارت میں مسلمانوں کی مساجد، درگاہوں، قبرستانوں اور دیگر تاریخی مقامات پر قبضہ کرنے سے متعلق بدنام زمانہ وقف ترمیمی قانون کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ آٹھ اپریل کو وقف ترمیمی قانون لاگو ہونے کے بعد ایک ہفتے کے اندر اس نوعیت کے چار واقعات ہوچکے ہیں اور اس کا دائرہ بڑھ رہا ہے۔ تازہ واقعہ ریاست اترپردیش کے شہر سنبھل کی مشہور درگاہ جنیٹہ شریف کا سامنے آیا ہے۔

اسی طرح بنارس میں واقع تاریخی عالمگیر مسجد میں انتہا پسند ہندو جوتوں سمیت گھس گئے۔ دوسری جانب سنبھل میں ہی مغلیہ دور کی تاریخی شاہی جامع مسجد کا نام زبردستی تبدیل کردیا گیا ہے، جس پر علاقے میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ جبکہ اس سے قبل الہ آباد (پریاگ راج) میں انتہا پسند ہندوئوں نے سالار غازی کے مزار کی درگاہ کی چھت پر چڑھ کر زعفرانی جھنڈا لہرا دیا تھا۔ جنونی ہندوئوں نے نعرے بازی کی اور کہا کہ سالار مسعود غازی حملہ آور تھے۔ ان کی یہاں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ ان حملہ آوروں نے درگاہ کی زمین ہندوئوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مقامی انتظامیہ کو ایک میمورنڈم بھی دیا۔

مودی سرکار کی جانب سے نافذ کیے جانے والے متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے بعد پورے بھارت میں مساجد، درگاہوں اور مسلمانوں کے قبرستان کے خلاف ایک مہم شروع کردی گئی ہے۔ چند روز پہلے اتر پردیش کے شہر سنبھل میں واقع مشہور درگاہ جنیٹہ شریف کے بارے میں متعصب مقامی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ درگاہ وقف اراضی پر نہیں، بلکہ سرکاری زمین پر تعمیر کی گئی۔ درگاہ پر قبضے کے لئے انتظامیہ نے یہ شوشا بھی چھوڑا کہ یہاں مشتبہ سرگرمیاں چل رہی ہیں۔

یہ درگاہ دراصل معظمیہ شاہ کا مزار ہے، جہاں سالانہ عرس میں ہزاروں معتقدین شرکت کرتے ہیں۔ اس معاملے کو تحصیلدار پرتاب سنگھ دیکھ رہا ہے، جس کا کہنا ہے کہ درگاہ کی دیکھ بھال کرنے والوں کو وقف سے متعلق دستاویزات جمع کرانے کے لئے دفتر بلایا گیا ہے۔ سنبھل شہر میں ہی چھ ماہ قبل مغلیہ دور کی تاریخی شاہی جامع مسجد کی جگہ مندر کے دعوے کے بعد ہندو مسلم فساد ہوگیا تھا، جس میں چار جانیں گئی تھیں۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب گزشتہ برس نومبر میں کیلا دیوی مندر سنبھل کے پنڈت نے مقامی عدالت میں ایک درخواست دائر کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ شاہی جامع مسجد کی جگہ ’’ہری ہر‘‘ نامی مندر قائم تھا، جسے سن پندرہ سو چھبیس میں توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی۔ لہٰذا محکمہ آثار قدیمہ اس جگہ کا سروے کرے۔ اس درخواست کے فوری بعد نہایت سرعت کے ساتھ عدالت نے سروے کا حکم دیا اور چند گھنٹوں میں مسجد کا سروے بھی کرالیا گیا۔ جس تیزی کے ساتھ یہ ساری کارروائی کی گئی، اس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب طے شدہ منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے۔

چند روز بعد ہی سروے ٹیم دوبارہ شاہی جامع مسجد کے باہر پہنچ گئی، جس پر وہاں جمع مسلمانوں نے احتجاج شروع کردیا۔ اس کے جواب میں پولیس نے گولی چلائی اور چار نوجوان مسلمان جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے ایک جوڈیشل کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ تاہم قریباً چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی قاتلوں کو کٹہرے میں نہیں لایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اترپردیش کا وزیراعلیٰ مودی کا دست راست یوگی ادیتہ ناتھ ہے، جو اپنی مسلم دشمنی کے حوالے سے بدنام ہے۔ سنبھل کی اس شاہی جامع مسجد کو لے کر چند روز پہلے انتظامیہ نے ایک اور تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔

اس تنازعہ کا سبب آثار قدیمہ کے سروے آف انڈیا کی جانب سے مسجد کا نام تبدیل کرکے ’’جمعہ مسجد‘‘ رکھنا ہے۔ مسجد کے باہر اس نئے نام کا بورڈ لگادیا گیا ہے، جس سے علاقے کے مسلمانوں میں سخت اشتعال پایا جاتا ہے۔ شاہی جامع مسجد کے وکیل شکیل احمد وارثی کا کہنا ہے کہ ’’مسجد کو طویل عرصے سے شاہی جامع مسجد سنبھل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہم اس معاملے کو عدالت لے کر جائیں گے‘‘۔

اتر پردیش کے شہر سنبھل میں واقع اس شاہی جامع مسجد کو مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے دور میں دسمبر پندرہ سو چھبیس کو تعمیر کیا گیا تھا۔ جنوبی ایشیا میں مغل دور کی یہ قدیم ترین مسجد ہے اور بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ میں ایک یادگار کے طور پر محفوظ ہے۔ تاہم نئے وقف ترمیمی قانون کے ذریعے ایک بار پھر اس مسجد کی جگہ مندر بنانے کی پس پردہ کوششیں کی جارہی ہیں، جن کا آغاز گزشتہ برس کردیا گیا تھا۔ ایودھیا میں مغل بادشاہ بابر کے دور میں ہی تعمیر کردہ ’’بابری مسجد‘‘ کی شہادت کے بعد اب صدیوں پرانی بابر دور کی شاہی جامع مسجد سنبھل پر ہی ہندو توا کی نظریں نہیں ہیں۔

بلکہ بنارس کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ جامع مسجد، آگرہ کی جامع مسجد اور درگاہ شیخ سلیم چشتی، جونپور میں واقع اٹالہ مسجد، بدایوں میں واقع شمسی جامع مسجد، لکھنئو میں واقع ٹیلے کی مسجد، مدھیہ پردیش میں واقع کمال مولا مسجد، منگلورو کی جمعہ مسجد اور بنارس کی عالمگیر مسجد سمیت درجنوں تاریخی مساجد کے ساتھ اجمیر کی درگاہ، کرناٹک میں واقع صوفی بزرگ داتا حیات کی درگاہ کے علاوہ قطب مینار دہلی سمیت دیگر عمارات پر بھی پچھلے کئی برس سے قبضے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ نئے وقف ترمیمی قانون نے متذکرہ مساجد اور درگاہوں سمیت بھارت میں مسلمانوں کی دیگر سینکڑوں مساجد اور قبرستانوں سمیت درجنوں درگاہوں پر قبضے کی راہ ہموار کردی ہے۔

اتر پردیش کے شہر بنارس (وارانسی) میں واقع قدیم گیان واپی جامع مسجد سترہویں صدی میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے تعمیر کرائی تھی۔ بعض روایات میں ہے کہ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی۔ چونکہ یہ گیان واپی علاقے میں واقع ہے۔ لہٰذا اسی نام سے مشہور ہوگئی۔ اس مسجد کے حوالے سے انتہا پسند ہندوئوں نے یہ پروپیگنڈا پھیلا رکھا ہے کہ اسے کاشی وشوناتھ مندر کے کھنڈر پر تعمیر کیا گیا تھا۔ انیس سو چوراسی سے وشواہندو پریشد اور سنگھ پریوار کے انتہا پسندوں نے مسجد کی جگہ مندر بنانے کی تحریک شروع کر رکھی ہے۔

انیس سو اکیانوے میں بنارس کے سول کورٹ میں اس حوالے سے درخواست بھی دائر کی گئی۔ دسمبر انیس سو بانوے میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوئوں نے گیان واپی جامع مسجد بھی قبضے میں لینے کی کوششیں تیز کردیں، جو تاحال ناکام ہیں۔ بھارت کی مسلم کمیونٹی سمجھتی ہے کہ نئے وقف ترمیمی قانون کے بعد یہ کوششیں مزید زور پکڑیں گی۔ انتہا پسند ہندو گیان واپی جامع مسجد پر قبضے میں تو اب تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ تاہم بنارس کے متعصب ضلع مجسٹریٹ کی جانب سے گزشتہ برس جنوری میں ہندوئوں کو مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دیدی گئی تھی، جس کے فوری بعد وہاں مورتی پوجا شروع کردی گئی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس پر مسلمانوں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے الہ آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔ لیکن ہائیکورٹ نے بھی جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجسٹریٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

اتر پردیش کے شہر بنارس میں مغلیہ دور کی تاریخی عالمگیر مسجد پر بھی ہندو توا عناصر کی نظر ہے اور وہ عرصہ دراز سے اس پر قبضہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ وقف ترمیمی قانون کی منظوری سے ان انتہا پسند ہندوئوں کو مزید حوصلہ ملا ہے۔ چند روز پہلے بی جے پی کے رکن اسمبلی نیل کنتھ تیواڑی کی سربراہی میں ان کے حامی ہندو انتہا پسندوں کا ایک ٹولہ مسجد کے احاطے میں گھس گیا تھا، جس کے بعد کشیدگی پھیل گئی۔ مقامی مسلم کمیونٹی کے ارکان کے مطابق یہ شرپسندی نئے وقف ترمیمی قانون کا نتیجہ ہے۔

عالمگیر مسجد مینجمنٹ کمیٹی کے جوائنٹ سیکریٹری سید محمد یاسین نے سپریم کورٹ سے اس واقعہ کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ احاطے کی صفائی کے نام پر مسجد میں انتہا پسند ہندوئوں کے گھسنے کا واقعہ سراسر وقف پراپرٹی میں داخل ہونے کی غیر قانونی کوشش ہے۔ بی جے پی رکن اسمبلی اور ان کے حواری مسجد میں جوتوں سمیت داخل ہوئے۔ جبکہ موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔

اتر پردیش کے شہر بنارس میں واقع یہ عالمگیر مسجد جسے اورنگزیب مسجد بھی کہا جاتا ہے، سترہویں صدی میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے تعمیر کرائی تھی۔ اس بارے میں بھی عرصہ دراز سے انتہا پسند ہندو تنظیمیں یہ دعویٰ کرتی چلی آرہی ہیں کہ یہ مسجد بھی ایک مندر کے کھنڈر پر تعمیر کی گئی۔ اس سلسلے میں ہندوئوں نے عدالت سے بھی رجوع کیا تھا، لیکن کامیابی نہ ہوسکی۔ وقف ترمیمی قانون کے بعد دوبارہ اس مسجد کو حاصل کرنے کی تیاری کی جارہی ہے، جس کا اندازہ چند روز پہلے بی جے پی کے ایک قانون ساز کے ہمراہ بیس سے زائد ہندو انتہا پسندوں کا مسجد میں زبردستی داخل ہونے کے واقعہ سے بخوبی ہوتا ہے۔ یہ مسجد پنج گنگا گھاٹ پر واقع ہے اور مغلیہ دور کے فن تعمیر کی عمدہ مثال ہے۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔