اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی جارحیت اور انتہا پسندی کی نشاندہی کرتی ہے،اور یہ اعلان اس خیال کو تقویت دیتا ہے کہ بھارت پاکستان پر آبی جارحیت مسلط کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں تھا،مگر یہ بات قابل غور ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل یا منسوخ نہیں کرسکتا کیونکہ 1960 میں طے پانے والا انڈس واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر وضع کردہ پالیسی کے تحت ضمانت یافتہ معاہدہ ہے۔ اگر بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل یا منسوخ کرتا ہے تو پھر ان تمام معاہدوں پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے جو دیگر ممالک کے ساتھ کئے گئے ہیں ۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کا ضامن عالمی بینک بھی ہے اور معاہدے کے تحت بھارت از خود انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل یا منسوخ کرنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔ معاہدے کا آرٹیکل 12(4) صرف اس صورت میں معاہدہ ختم کرنے کا حق دیتا ہے جب بھارت اور پاکستان دونوں تحریری طور پر راضی ہوں۔ دوسرے لفظوں میں، انڈس واٹر ٹریٹی کو ختم کرنے کے لیے دونوں ریاستوں کی طرف سے منسوخی کے معاہدے کا مسودہ تیار کرنا ہوگا اور پھر دونوں کی طرف سے اس کی توثیق لازمی ہوگی۔ اس معاہدے میں یکطرفہ "معطلی” کی کوئی شق نہیں ہے۔ سندھ طاس معاہدہ ایک غیر معینہ مدت کا معاہدہ ہے جسے کسی مخصوص وقت یا واقعے سے بھی نہیں جوڑا جا سکتا۔عالمی قوانین کے ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت دونوں انڈس واٹر ٹریٹی کے یکساں طور پر پابند ہیں اور یکطرفہ طور پر کسی معاہدے سے ہٹنا دراصل اس کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اگر بھارت یکطرفہ طور پر "تنسیخ”، "معطلی”، "واپس لینے” یا "منسوخ” وغیرہ جیسے جواز پیش کرکے معاہدے کی پیروی کرنا چھوڑ دیتا ہے تو اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جسے بھارت "منسوخ یا دستبرداری” کہے گا، پاکستان اسے "خلاف ورزی” سے تعبیر کرے گا۔دوسری طرف آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت پاکستانی پانی کو نیچے کی طرف بہنے سے روکتا ہے تو اس سے چین کے لیے ایک مثال بن سکتی ہے جہاں سے پانی بھارت کی طرف آتا ہے۔
اگر بھارت پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ ایک جانب بین الاقوامی آبی قانون کی خلاف ورزی ہوگی جس کے مطابق بالا دستی والا ملک (جیسے بھارت) زیریں ملک (جیسے پاکستان) کے پانی کو روکنے کا حق نہیں رکھتا، چاہے سندھ طاس معاہدہ موجود ہو یا نہ ہو۔ اگر بھارت ایسا قدم اٹھاتا ہے تو یہ علاقائی سطح پر ایک نیا طرزِ عمل قائم کرے گا، جو بین الاقوامی قانون میں ایک مثال کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔ اس کا فائدہ چین اٹھا سکتا ہے، جو دریائے برہم پترا کے پانی کو روکنے کے لیے اسی بھارتی طرزِ عمل کو بنیاد بنا سکتا ہے۔ اس طرح بھارت کا یہ قدم خود اس کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ چین جیسی طاقتیں اس صورتحال کو بغور دیکھ رہی ہوں گی۔ماہرین کے مطابق سندھ طاس معاہدہ اپنی نوعیت میں ایک مضبوط اور دیرپا معاہدہ ہے جس میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ معطلی یا خاتمے کی شق شامل نہیں، بلکہ اس میں ترمیم صرف فریقین کی باہمی رضامندی اور باقاعدہ توثیق شدہ معاہدے کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ ماہرین کے مطابق بھارت کی جانب سے معاہدے کی یکطرفہ معطلی اس کے طے شدہ طریقہ کار، جیسے مستقل انڈس کمیشن، غیر جانبدار ماہرین یا ثالثی عدالت کے ذریعے تنازع کے حل جیسی شقوں کی خلاف ورزی ہے ۔واضح رہے کہ سندھ طاس معاہدہ ماضی میں کئی جنگوں اور سیاسی کشیدگی کے باوجود قائم رہا ہے، جو اس کی قانونی اور اخلاقی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔دوسری جانب اعلی سطح کے ذمہ دارذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کے لیے ایک عرصے سے آبی جارحیت کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا اور فالس فلیگ آپریشن کے تحت پہلگام حملے کے ذریعے اس کا جواز تلاش کیا گیا تاہم اگر بھارت کوئی بھی معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کرتا ہے تو پاکستان بھی جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے اور شملا معاہدے جیسے معاملات بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں