نمائندہ امت :
کچے کے علاقے میں امن و امان قائم کرنے سے متعلق صدر مملکت آصف علی زرداری کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہوسکیں۔ بر وقت فیصلہ کن آپریشن نہ ہونے کے باعث کچے کے ڈاکوئوں کے حوصلے مزید بڑھ گئے ہیں۔
انڈس ہائی وے پہلے ہی غیر محفوظ تھا۔ اب ایک بار پھر سندھ میں ملتان سکھر موٹر وے غیر محفوظ ہوگئی۔ گھوٹکی، کشمور، شکارپور کے بعد ضلع خیرپور کے کئی علاقے بھی نوگو ایریاز بن گئے ہیں۔ حکومت کی رٹ قائم کرنے کیلئے اربوں روپے لاگت سے کچے کے علاقے میں قائم کردہ پولیس کی چوکیاں بھی عملی طور پر غیر فعال ہوچکی ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس جدید اسلحہ کی ترسیل کیسے ہو رہی ہے۔ حال ہی میں کچے کے ڈاکوئوں کی جانب سے سیلڈ شدہ راکٹ (آر پی جی) کی وائرل ہونے والی ویڈیو نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ گرینڈ آپریشن نہ ہونے کے باعث مختلف قبائل کے درمیان خونریز تصادم میں بھی دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ 1980ء کی دہائی سے لے کر خصوصاً شمالی سندھ، جس میں کشمور، شکارپور، سکھر، گھوٹکی، خیرپور، لاڑکانہ، دادو، نوشہرو فیروز ڈاکوئوں کی محفوظ آماجگاہیں رہی ہیں۔ تاہم اکیسویں صدی کے بعد کچے کے بیشتر علاقے ڈاکوئوں سے پاک ہوگئے تھے۔ بعد ازاں گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے خصوصاً شمالی سندھ کے تین اضلاع کشمور، شکارپور اور گھوٹکی کے کچے کے علاقے ڈاکوئوں کے مکمل کنٹرول میں ہیں۔ جہاں پولیس اور رینجرز وغیرہ کے کئی مشترکہ آپریشن بھی ہوئے ہیں۔ جن میں بعض بدنام زمانہ ڈاکو مارے بھی گئے۔ لیکن فیصلہ کن آپریشن نہ ہونے کے باعث ڈاکوئوں کی تعداد میں کمی کے بجائے ان کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ جس پر متعدد بار مقتدر حلقے بھی تشویش ظاہر کرچکے ہیں۔
کچے کے علاقے میں امن و امان کی بحالی کیلئے گزشتہ برس خود صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھرپور دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے سکھر میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا تھا۔ جس میں پولیس، رینجرز، سول انتظامیہ کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ افسران نے بھی شرکت کی تھی۔ مذکورہ اجلاس میں مختلف اداروں کی جانب سے صدر آصف علی زرداری کو کچے کی صورتحال سے متعلق بریفنگ دی گئی تھی۔ جس کے بعد صدر مملکت نے کچے کے علاقے کو پُرامن بنانے کیلئے مختلف احکامات جاری کیے تھے۔
ان احکامات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ کچے کے علاقے میں بدامنی کی بڑی وجہ مختلف قبائل کے درمیان خونریز تصادم ہیں۔ کیونکہ متعلقہ قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے پر حاوی ہونے اور نقصان پہنچانے کیلئے نہ صرف ڈاکوئوں کا سہارا لیتے ہیں۔ بلکہ خود متعلقہ قبائل نے ڈاکوئوں کے گینگ کو پروان چڑھایا۔ اس لئے سب سے پہلے مختلف قبائل کے درمیان جھگڑوں کو ختم کرایا جائے اور تمام قبائل کے سرداروں کو یہ پیغام دیا جائے کہ ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن میں حکومت کا ساتھ دیا جائے۔ جو قبائلی سردار حکومت سے تعاون نہیں کریں گے۔ ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ یہ اعلان بھی سامنے آیا تھا کہ جو ڈاکو ہتھیار ڈال دیں گے، ان سے اچھا برتائو کیا جائے گا۔ البتہ رہزیل اور بدنام زمانہ ڈاکوئوں کو معافی نہیں ملے گی۔ لیکن وہ دن اور آج کا دن صدر مملکت کی جانب سے شروع کی گئی وہ کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ڈاکوئوں کا صفایا کرنے کیلئے گزشتہ سال فیصلہ کیا گیا تھا کہ موسم سرما میں جب دریائے سندھ میں پانی کی مقدار کم ہوگی، تو کچے کے علاقے میں گرینڈ آپریشن کیا جائے گا۔ کیونکہ دریائے سندھ میں پانی کی مقدار کم ہونے کے باعث پولیس، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو موثر آپریشن کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن موسم سرما بھی گزر گیا اور فیصلہ کن آپریشن تاحال شروع نہ ہوسکا۔ اب موسم گرما کے باعث دریائے سندھ میں بتدریج پانی کی مقدار بڑھ رہی ہے۔
ایسی صورتحال میں ڈاکو اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ پانی کی مقدار زیادہ ہونے کے باعث پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آپریشن کی غرض سے نقل و حرکت مشکل ہوجاتی ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کیلئے ڈرون کیمروں سمیت جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے اور انٹرنیٹ کو بند کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ چند ماہ پہلے اس سلسلے میں میڈیا میں کشمور اور شکارپور سے ایک رپورٹ سامنے آئی کہ ڈرون کیمروں کے ذریعے چند ڈاکوئوں پر حملہ کرکے انہیں مار دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ بھی تھم گیا۔
مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچے میں تعینات پولیس اہلکاروں کو مراعات دینے کیلئے متعلقہ پولیس اہلکاروں کو تنخواہوں و دیگر الائونسز کے علاوہ کچا الائونس کی مد میں بھی رقم دی جاتی ہے۔ جبکہ صرف آپریشن کیلئے حکومت سندھ نے تین ارب روپے کے خصوصی فنڈ بھی جاری کیے تھے، لیکن جو عملی طور پر سود مند ثابت نہیں ہوسکے۔ اس کے علاوہ کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کی آمدورفت کو روکنے، ان کی نگرانی کرنے کیلئے اربوں روپے کی لاگت سے ضلع گھوٹکی میں دریائے سندھ کے بچائو بند پر قائم کی گئی 62 پولیس چوکیاں بھی عملی طور پر ڈاکوئوں نے غیر فعال بنا دی ہیں۔ کیونکہ آئے دن ان پولیس چوکیوں پر درجنوں کی تعداد میں ڈاکو حملہ کردیتے تھے اور ان پولیس چوکیوں میں تعینات چند پولیس اہلکار ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ ان حملوں میں چوکیوں پر تعینات کئی پولیس اہلکار شہید بھی ہوچکے ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع کشمور میں انڈس ہائی وے پر پہلے بھی رہزنی وغیرہ کی وارداتیں ہوتی رہتی تھیں۔ تاہم ضلع گھوٹکی میں نیشنل ہائی وے محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن 2019ء میں جب ملتان سکھر موٹر وے ایم 5 آپریشنل ہوا تو گھوٹکی میں بھی رہزنی کی وارداتیں بڑھنا شروع ہوگئیں۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو موٹر وے تعمیر کیا گیا ہے، اس کا ضلع گھوٹکی میں اکثر علاقہ شہری علاقوں سے دور اور کچے کے علاقے سے ملحق ہے۔ اسی سبب ڈاکو رات کو کسی بھی وقت موٹر وے پر آکر لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں۔ گزشتہ برس مذکورہ موٹر وے کو کسی حد تک محفوظ بنایا گیا تھا۔ لیکن اب ایک بار پھر مذکورہ موٹر وے ضلع گھوٹکی میں غیر محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ خصوصاً رات کے وقت لوگ وہاں سفر کرنے سے گھبراتے ہیں۔
موثر آپریشن نہ ہونے کے باعث ڈاکوئوں کے حوصلے دن بہ دن بڑھ رہے ہیں اور اب دیگر اضلاع بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ اس کی ایک مثال تقریباً ایک ہفتہ قبل ضلع خیرپور میں دیکھنے کو ملی۔ جہاں بدنام زمانہ ڈاکو امداد پھلپھوٹو اور کشمیر جتوئی نے دن دیہاڑے 12 افراد کو اغوا کرلیا۔ ان میں سے 2 سکھر اور 10 ضلع خیر پور سے اغوا کیے گئے۔ بعد ازاں اس سلسلے میں پولیس کی ایک پریس ریلیز بھی جاری ہوئی۔ جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ڈی آئی جی سکھر فیصل عبداللہ چاچڑ اور ایس ایس پی سکھر اظہر مغل نے آپریشن کرکے چوبیس گھنٹے کے اندر تمام مغوی بازیاب کرالئے۔ تاہم مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ اغوا کی کارروائی بھی ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تھی اور مغویوں کی بازیابی ڈیل کے نتیجے میں ہوئی۔ یہ ڈیل کرانے میں سکھر کے ایک صحافی نے اہم کردار ادا کیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ پریس ریلیز کے مطابق مغویوں کو پولیس نے ڈاکوئوں سے مقابلہ کرکے بازیاب کرایا۔ لیکن اس مقابلے میں نہ کوئی ڈاکو مارا گیا نہ زخمی ہوا۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس جدید اسلحہ کیسے پہنچتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جو متعدد بار وزیر اعلیٰ سندھ اور مختلف صوبائی وزرا بھی اٹھاتے رہے ہیں۔ کیونکہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس ایئرکرافٹ گن سے لے کر دیگر اسلحہ، گولہ بارود بھی موجود ہے۔ حال ہی میں بدنام زمانہ ڈاکو راہب شر اور دیگر کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ جس دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ سیلڈ پیک راکٹ (آر پی جی) کھول رہے ہیں۔ اس ویڈیو نے تمام افراد کو حیران کردیا ہے کہ ڈاکوئوں کے پاس اتنا جدید اور بھاری اسلحہ کیسے پہنچتا ہے۔