اسلام آباد:فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی آئینی ترمیم کا بل منظور کرلیا گیا ۔ آئینی بل کی شق وارمنظوری لی گئی جس کی حمایت میں 229 اراکین نے ووٹ دیئےجبکہ ایک رکن نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔
اسپیکرایازصادق کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا ۔ اجلاس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی خصوصی طورپرشریک تھے۔
اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف محمود بشیر ورک نے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔ ترمیمی بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 اورسینیٹ میں 8 نشستیں برقرار رہیں گی اورفاٹا کے لئے مختص صوبائی نشستوں پرانتخابات اگلے سال ہوں گے۔ علاقے میں صدر اور گورنر کے بجائے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے اختیارات نافذ ہوں گے اور فاٹا کو اگلے 10 سال تک سالانہ ایک ارب روپے این ایف سی ایوارڈ کی مد میں اضافی ملیں گے۔ بل میں سپریم کورٹ اورپشاورہائی کورٹ کا دائرہ کارفاٹا تک بڑھانے اورایف سی آر کے مکمل خاتمے کا بھی ذکر ہے۔
ارکان اسمبلی کی جانب سے بل پر بحث کے بعد اس کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا۔ ایوان میں مسلم لیگ نون ، پاکستان پیپلز پارٹی ،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان نے بل کی حمایت میں ووٹ ڈالے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنما داور کنڈی نے بل کی مخالفت کی۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران بل کی کاپیاں پھاڑدیں۔ حکومتی اتحادی مولانا فضل الرحمان اورمحمود خان اچکزئی ایوان میں موجود نہیں تھے مگر دونوں جماعتوں کے ارکان نے آئینی ترمیمی بل کی مخالفت کی ۔
جے یو آئی (ف) کے رکن اسمبلی جمال الدین نے ایوان میں کہا کہ فاٹا کے عوام سے رائے لئے بغیرنظام مسلط کریں گے تو پریشانی ہوگی۔ جے یو آئی (ف) کی رکن شاہدہ اختر نے کہا کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنائیں ان کا حق نہ چھینا جائے۔ پشتونخوا میپ کی رکن نسیمہ پانیزئی نے ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے عوام کی رائے کے خلاف اقدام قبول نہیں۔