سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں انحراف کو پہلے ہی کینسر قرار دے چکی ہے (فائل فوٹو)
سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں انحراف کو پہلے ہی کینسر قرار دے چکی ہے (فائل فوٹو)

نیب ریفرنس نمٹانے کیلئے احتساب عدالت کو 6 ہفتے کی مہلت مل گئی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز میں فیصلے کے لئے مزید 6 ہفتے کی مہلت دے دی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے جج محمد بشیر کی درخواست پر سماعت کی۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سپریم کورٹ سے نیب ریفرنسز کی مدت سماعت میں 4 ہفتے کی توسیع کی درخواست کی تھی۔ سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث بھی پیش ہوئے۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شریف خاندان کے خلاف تینوں ریفرنسز میں شواہد اور گواہان ایک جیسے ہیں۔ جن میں 75 فیصد چیزیں مشترک ہیں۔ لہٰذا ان تینوں ریفرنسز کا ایک فیصلہ ہونا چاہیے، جبکہ اس حوالے سے پہلے بھی درخواست دی جاچکی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ دے چکے ہیں اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ معزز جج دیگر ریفرنسز نہیں سن سکتے۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فلیگ شپ ریفرنس میں ٹرانزیکشنز ایک دوسرے سے نہیں ملتیں جبکہ فلیگ شپ اور العزیزیہ کیسز بھی ملتے جلتے نہیں ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ نیب کو مزید کتنا وقت درکارہے؟
نیب وکیل نے جواب دیا کہ شریف فیملی کے خلاف دیگر دو ریفرنسزمیں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کتنے ریفرنس زیر التوا ہیں ایک کا تو فیصلہ ہوچکا۔
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کل چارریفرنس تھے۔ ایک ریفرنس اسحاق ڈار کے خلاف ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسحاق ڈار تو مفرورہے، کیا نیب مفرور کو سزا دے سکتی ہے؟
جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ مفرور ہونے پر سزا ہو سکتی ہے۔
سماعت کے بعد عدالت نے احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کے فیصلے کے لئے مزید 6 ہفتے کا وقت دے دیا۔
جس پر عدالت نے حکم دیا کہ اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس بھی 6 ہفتوں میں ہی مکمل کرنا ہوگا۔