اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق صدر آصف علی زرداری سے ان کے اور بچوں(بلاول، آصفہ اور بختاور) کے اثاثوں کی تفصیلات 15 روز میں طلب کرلیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے این آر او کیس میں 10 سالہ اثاثوں کی تفصیلات اور اندرون و بیرون ملک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کرنے سے متعلق 29 اگست کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست پر سماعت کی۔
اس موقع پر عدالت نے سابق صدر آصف زرداری کو ہدایت کی کہ وہ ترکے میں ملنے والے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کریں۔
سابق صدر کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے استدعا کی کہ 5 سال تک کی تفصیلات لے لیں، 10 سال کی تفصیلات نہ مانگیں، قانون صرف 5 سال کے لیے ہے۔
عدالت نے فاروق ایچ نائیک کی 5 سالہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دس سال کی تفصیلات فراہم کریں جس پر آصف زرداری کے وکیل نے کہا خودمختار بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات بھی نہ طلب کی جائیں جس پر چیف جسٹس نے کہااب تو تمام بچے بالغ اور خودمختار ہیں، شادی تک بچیاں زیر کفالت رہتی ہیں۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل کے دوران کہا کہ آصف زرداری 8 مقدمات میں شریک ملزم تھے اور آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت ان سے بیان حلفی طلب کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر آپ بیان حلفی نہیں دینا چاہتے نا دیں، عوامی پیسہ عوامی مفاد سے متعلق ہے، اس لیے ہم نے آرٹیکل 184 تین کا استعمال کیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے فاروق ایچ نائیک سے استفسار کیاکہ کیا تمام ریکارڈ آپ نے خود ضائع کر دیا؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ میں نے ریکارڈ کے بارے میں امکان ظاہر کیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کرپشن کا ایشو نہیں ہے، ہم اپنے دائرہ اختیار کو بڑھا رہے ہیں۔
فارو ایچ نائیک نے کہا کہ میرے موکل 1997 سے 2005 تک جیل میں رہے، ان بچوں کے اثاثے مانگے جارہے جو میرے موکل کے زیر کفالت نہیں، محترمہ بے نظیر کی قبر کا ٹرائل کیا جارہا ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہ توبہ توبہ ایسا کس نے کہا؟ ہم محترمہ کے ٹرائل کا سوچ ہی نہیں سکتے، محترمہ شہید ہوئیں اور آپ کے دور حکومت میں مقدمے کا وہ ٹرائل نہیں ہوا جیسا ہونا چاہیے تھا۔
جس پر وہاں موجود دوسرے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا ملزمان کی بریت کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں، چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ آپ سارا دن عدالت میں ہوتے ہیں، ہمیں بتائیں درخوست سن لیتے ہیں
عدالت نے آصف زرداری اور ان کے بچوں (بلاول، آصفہ اور بختاور) کے اثاثوں کی تفصیلات 15 روز میں طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔