لندن:دنیا بھر میں ناقص مصنوعی اعضاء معذوری اور اموات کا سبب بن رہے ہیں اور نقائص والے اعضاء کے استعمال سے صرف ترقی پذیر ہی نہیں بلکہ امریکا اور برطانوی ممالک بھی متاثر ہیں۔
تحقیقاتی صحافیوں کے عالمی گروپ انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (International Consortium of Investigative Journalists) یعنی آئی سی آئی جے نے دنیا بھر میں طبی آلات کے حوالے سےامپلانٹ فائلز کے نام سے ایک تحقیق کی۔
اس تحقیق میں 36 ملکوں سے 250 رپورٹرز نے حصہ لیا، جس میں پاکستان سے سینئر صحافی عمر چیمہ بھی شامل تھے۔ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ پیس میکر، دل کے اسٹنٹس، مصنوعی کولہے، گھٹنے، چھاتیاں اور اسی طرح کے دیگر مصنوعی اعضاء کی وجہ سے اکثر مریض مزید بیمار، معذور حتیٰ کہ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نقائص والے امپلانٹس (مصنوعی اعضاء) سے مریضوں کے متاثر ہونے کا معاملہ صرف ترقی پذیر ممالک نہیں بلکہ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہے۔
تاہم پاکستان میں ان ڈیوائسز کو پرکھنے اور جائزہ لینے والا کوئی ادارہ نہیں، جو مغربی ممالک سے درآمد کیے جانے والے ان آلات کی جانچ پڑتال کرسکے۔
اس تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں مریضوں کے جسم میں نصب کیے جانے والے میڈیکل امپلانٹس (طبی آلات) کے نتیجے میں کس طرح مریض مشکلات کا شکار ہوئے اور ان میں اکثر کا انتقال ہوگیا۔
تاہم پاکستان میں اس صورتحال کے حوالے سے اعداد و شمار دستیاب نہیں جس کی وجہ کمزور ریگولیٹری میکنزم اور ڈاکٹروں اور یہ آلات بنانے والوں کا گٹھ جوڑ بتایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایسے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔
واضح رہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈی آر اے پی) نے 17 ممالک سے طبی امپلانٹس اور ڈیوائسز درآمد کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جن میں امریکا، برطانیہ، جاپان، آسٹریلیا، کینیڈا، آسٹریا، بیلجیئم، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، آئرلینڈ، اٹلی، نیدرلینڈز، ناروے، اسپین، سوئیڈن اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔ان ممالک سے درآمد کے لیے متعلقہ ملک کی ریگولیٹری باڈی سے اجازت ضروری ہوتی ہے۔