سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس گلزار احمد نے کراچی پولیس کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی پولیس نے فائرکہیں اورمارناہوتا ہے مگر بندوق کہیں اور ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ نے کراچی میں پولیس فائرنگ سے جاں بحق بچی امل عمرازخودنوٹس کیس کی سماعت کی۔
جسٹس گلزار احمد نے سندھ حکومت اورکراچی پولیس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ہسپتالوں کی صورتحال بہتر بنانے کیلیے کیا اقدامات ہوئے؟، ہسپتالوں کا کام ہے کہ خود مریض کو ادویات فراہم کریں، دوائی کی لائن میں لگے لواحقین کے مریض اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں، ایمرجنسی میں مریض کے لواحقین کو دوائی لینے بھجوا دیا جاتا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کالا پل پرابھی بھی نشئی سوئے پڑے ہونگے، پولیس کی ناک کے نیچے منشیات کا دھندا ہوتا ہے، کراچی میں ٹریفک سگنل پر رکے لوگ لوٹ لیے جاتے ہیں، اسلحہ صرف پولیس افسران کے پاس ہونا چاہیے نہ کہ اہلکاروں کے پاس، کراچی پولیس نے فائرکہیں اورمارناہوتا ہے اوربندوق کہیں اور ہوتی ہے، کراچی پولیس کی فائرنگ سے پہلے بھی کئی لوگ مارے جا چکے۔
امل کے والدین کے وکیل نے بتایا کہ نیشنل میڈیکل سنٹر کی رجسٹریشن ہی امل ہلاکت کے بعد ہوئی۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہیلتھ کیئرکمیشن ایکٹ 2013 میں بنا لیکن عمل چار سال بعد شروع ہوا، چار سال ایکٹ الماری میں پڑا رہا اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔
سرکاری وکیل نے بتایا کہ سندھ میں اس وقت کوئی ہسپتال لائسنس یافتہ نہیں، نجی ہسپتالوں کی رجسٹریشن جاری ہے جس کے بعد لائسنس جاری کرنے کا مرحلہ آئے گا۔عدالت نے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کوامل عمرکے واقعہ میں نیشنل میڈیکل سینٹرکیخلاف انکوائری کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایک ماہ میں رپورٹ جمع کرائی جائے۔
عدالت نے سندھ حکومت کو امل عمر ایکٹ پر عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے بچی کے والدین کو امدادی رقم نہ دینے پر بھی جواب طلب کرلیا اور سماعت ایک ماہ کیلیے ملتوی کردی۔