پشاورڈویلپمنٹ اتھارٹی کیخلاف سابق ڈی جی سلیم وٹوکی پلاٹ کے حصول کیلیے درخواست پرچیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ جب1978کاقانون 2001 میں ختم ہواتوآپ نے رولزکیسے بنایا؟،اس میں تو سب نے لپیٹ میں آنا ہے ہم آرڈردیتے ہیں جوہوگا سب کے ساتھ ہوگا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ سارامیلہ سجا ہی میرارومال چوری کرنے کیلیے تھا، والا معاملہ ہو گیا۔
سپریم کورٹ میں پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کیخلاف سابق ڈی جی سلیم وٹوکی پلاٹ کے حصول کیلئے درخواست پر سماعت ہوئی ،چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سلیم وٹو نے اسکیم منظورکی اورخودکوسب سے پہلے پلاٹ الاٹ کردیا،یہ تو نمازاور روزے والا حساب ہوجائے گا،سرکاری زمین کوہاﺅسنگ سوسائٹی بنانے سے بہتر تھا زمین پر فلیٹ بنا کردیتے۔
وکیل قلب حسن نے کہا کہ سلیم وٹو کو پلاٹ ملااوربعد میں کینسل کیاگیا ،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بی ڈی اے نے لوکل ایریا کی ڈویلپمنٹ کرنی تھی مگرافسروں نے اپنے لیے ہاﺅسنگ اسکیم بنالی ،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ تین لوگوں نے رولز بنا لیے جبکہ جس قانون کے تحت رولز بنائے گئے وہ ختم ہوچکا تھا۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ آپ کے مطابق سب کو پلاٹ دیدیے گئے مگر ہائیکورٹ کے فیصلے میں توکسی کو پلاٹ نہیں دیاگیا،وکیل درخواست گزارنے کہا کہ تمام لوگوں کو پلاٹ ملے۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تو پھرآپ اس کو چیلنج کرتے،چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیاکہ جب1978کاقانون 2001 میں ختم ہواتو آپ نے رولز کیسے بنایا؟،اس میں تو سب نے لپیٹ میں آنا ہے ہم آرڈردیتے ہیں جوہوگا سب کے ساتھ ہوگا ۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ سارامیلہ سجا ہی میرارومال چوری کرنے کیلیے ،یہ تو وہ والی بات ہوئی،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لمبی چوڑی بات چھوڑ دیں قانون کی بات کریں ،جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ بتادیں یہ سکیم اورپلاٹ کس کے ہیں؟۔
وکیل قلب حسن نے کہا کہ پشاورڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس اس ہاﺅنسگ سوسائٹی کی ملکیت ہے ،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جس کو جہاں مرضی آئے پلاٹ دیدیا سرکاری زمین افسروں نے اپنے نام الاٹ کردی ،را ت کوسوچ رہا تھاپی ڈی اے کے افسرعوام کے خدمت کی بجائے اپنی خدمت کرتے رہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کس قانون کے تحت سوسائٹی وجود میں آئی ،وکیل نے کہا کہ آپ وقت دے دیں کیس کے سارے بیک گراﺅنڈ سے آگاہ کردوں گا،عدالت نے سماعت کل تک کیلیے ملتوی کردی۔