ترکی نے لیبیا میں جنگ بندی کے لیے مصر کی پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کوشش باغی فوجی کمانڈر جنرل خلیفہ حفترکو بچانے کی کوشش ہے۔
لیبیا میں گزشتہ کئی ہفتوں سے گورنمنٹ آ ف نیشنل اکارڈ (جی این اے) کی فورسز اور لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے) کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں لیکن حالیہ دنوں میں ترکی کی معاونت سے سرکاری فوج نے خلیفہ حفتر کی فوج کے خلاف کامیاب کارروائیوں کے بعد کئی علاقوں کا قبضہ ان سے چھڑا لیا ہے۔ دارالحکومت طرابلس سمیت لیبیا کے کئی علاقوں میں گورنمنٹ آ ف نیشنل اکارڈ کی حکومت قائم ہے جس کے وزیرِ اعظم فائز السراج ہیں۔ اقوامِ متحدہ، امریکہ اور ترکی سمیت کئی ملک اس حکومت کے حمایتی ہیں۔
اس کے برعکس مصر، متحدہ عرب امارات اور روس سابق فوجی کمانڈر جنرل خلیفہ حفتر کی حمایت کر رہے ہیں۔ خلیفہ حفتر کے پسپائی کے بعد مصرنے یہ تجویز دی ہے کہ جنگ بندی کے بعد لیبیا میں حکومت سازی کے لیے ایک منتخب کونسل تشکیل دی جائے۔ متحدہ عرب امارات اور روس نے بھی اس تجویز کی حمایت کی ہے۔ البتہ، ترکی کے وزیرِ خارجہ میولود چاوش اولو نے بدھ کو اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اسے طرابلس میں جنرل حفتر کی فوج کو پہنچنے والے نقصان کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
ترک ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ جنگ بندی قاہرہ کی مرضی سے نہیں ہو گی بلکہ اس کے لیے تمام فریقوں کی رضا مندی اور مناسب پلیٹ فارم ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ جنرل حفتر کو بچانے کے لیے جنگ بندی کی پیش کش میں بظاہر خلوص نظر نہیں آتا۔