اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ پاک بحریہ کا کام ملک کا دفاع ہے، کلب بنانے کا کام قانون میں کہاں لکھا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں راول جھیل کے کنارے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ نیول چیف کی جانب سے وکیل اشتراوصاف پیش ہوئے۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے پوچھا کہ پہلے یہ بتائیں کھوکھے والے کے لیے یہ آئینی عدالت کیا کرے؟ کیا ہم یہ کہیں کہ ان کو ریگولرائز کر دیں اور کھوکھے والے کا کوئی حق نہیں؟ نیوی کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے، نیوی کا یہ سلینگ یا کلب بنانے کا رول کہاں ہے؟۔قانون میں بتائیں کہاں لکھا ہے؟
وکیل اشتراوصاف نے کہا کہ ڈیفنس کے لیے ٹریننگ سے متعلقہ تمام چیزیں آتی ہیں جن میں اسپورٹس بھی ہے، ریاست پاکستان آرمڈ فورسز کی اس ایکٹیویٹی کو تسلیم کرتی ہے کیونکہ یہ ٹریننگ کا حصہ ہے، پی آئی اے نے حاضر سروس ایئر مارشل کو چارج دیا، سپریم کورٹ نے ایئرمارشل کی سروس ریگولرائز کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے کہا کہ آپ کے دلائل سے لگ رہا ہے کیا پہلے سول حکومت کہے گی کہ کوئی ادارہ چلانے میں ہم ناکام ہوگئے؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں پی آئی اے، واپڈا فیل اور سی ڈی اے تباہ ہو گیا، اس لیے آپ کو بلا رہے ہیں؟ حالانکہ سی ڈی اے نے تو آپ کو بطور ریگولیٹر نوٹس کیا ہے۔
وکیل اشتراوصاف نے کہا کہ نہیں میں ایسا کچھ نہیں کہہ رہا، انہوں نے بھری میٹنگ میں کہا کہ ہمیں نہیں پتہ زمین کس کی ہے، اسی لیے جواب میں انہوں نے نا بھی نہیں کی اور ہاں بھی نہیں۔
عدالت نے کہا کہ جس وفاقی حکومت کے آپ ماتحت ہیں اس کے کس افسر نے کہاں آپ کو اجازت دی، کوئی بلڈنگ پلان کوئی منظوری کچھ نہیں تھا اور آپ اس کا افتتاح کرنے چلے گئے، جب ریگولیٹر نے آپ کو نوٹس کردیا تو پھر آپ اس پر کیسے ایکٹیویٹی جاری رکھ سکتے ہیں، یہ معاملہ قانون اور رول آف لا کے احترام کا ہے، کیا کسی نے بتایا کہ کہ ریگولیٹر کا نوٹس آیا ہوا ہے اس کا افتتاح نہ کریں۔
وکیل نے کہا کہ اس حوالے سے میرے موکل کی کوئی ہدایت نہیں کوئی بیان ابھی نہیں دوں گا۔
عدالت نے کہا کہ آپ کی حد تک تو واضح ہوگیا کہ ریکارڈ آپ کے پاس نہیں، جو کچھ ہے سی ڈی اے کے پاس ہے، ہم تین چار فیصلے دے چکے ہیں کہ 1960 سے لیکر اب تک قانون کیا ہے، جو آپ نے کہا کہ جیسے بطور بادشاہ کام کیا تو اسی قسم کے فیصلوں کی وجہ سے سارے وزیراعظم آج نیب بھگت رہے ہیں، کچھ وزرائے اعظم بچارے اندر تو کچھ کیسز بھگت رہے ہیں، کیا کابینہ ڈویژن نے کوئی منظوری دی؟ اس حوالے سے آپ کے کچھ ریکارڈ نہیں، اگر ایسا ہو کہ نہ آپ کے پاس نہ سی ڈی اے کے پاس کوئی منظوری کا ریکارڈ ہو تو کیا ہوگا؟۔
پاکستان نیول فارمز کے وکیل ملک قمر افضل نے دلائل میں کہا کہ نیول فارمز کا نیوی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ نیوی کے آفیسرز یہ اسکیم چلا رہے ہیں۔
عدالت نے پوچھا کہ کیا نیوی نے نام استعمال کرنے پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی؟، اس اسکیم کو چلانے کا یہ لیٹر کس نے جاری کیا ہے، نیوی کے پاس کیا قانونی اتھارٹی ہے کہ وہ یہ کام کر سکتے ہیں، قانون کی خلاف ورزی کرکے یہ اس وردی کی عزت داؤ پر لگانے کے مترادف ہے، یہ اسکیم سویلین کے علاقے میں چل رہی ہے، عدالت نے ہاؤسنگ سوسائٹیز کے حوالے سے ایک آرڈر پاس کیا ہے، کیا اس آرڈر کی خلاف ورزی پر کسی باوردی افسر کو نوٹس کریں گے؟، اس کے سنگین اثرات ہو سکتے ہیں، یہ ایک کمرشل بزنس ہے نیوی کہہ رہی ہے اس کا اس سے لینا دینا نہیں، ایسی صورت میں کیا نیوی کے حاضر سروس افسران یہ بزنس کر سکتے ہیں؟۔
وکیل ملک قمر افضل نے کہا کہ یہ نیول فارمز اسکیم صرف ویلفیئر کےلیے ہے۔ عدالت نے کہا کہ فلاح و بہبود ان کا نہیں ریاست کا کام ہے اسی نے کرنا ہے، کیا آپ نے وفاقی حکومت سے اجازت لی، آپ ان کی کمانڈ کے تحت آتے ہیں۔
وکیل ملک قمر افضل نے کہا کہ اس معاملے کے لیے مجھے اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ اسکیم کے ریگولیٹر کیسے بن گئے؟ درخواست گزار نے توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی ہے، آپ یہ بتائیں کہ کیا ہم کسی یونیفارم آفیسر کو نوٹس جاری کریں؟
وکیل نے کہا کہ میں نے بھی بتایا ہے ان کو کہ عدالت کو نوٹس کرنے میں مشکل ہو گی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو کوئی مشکل نہیں ہم صرف اس کے اثرات کا ذکرکر رہے ہیں، واضح کر رہا ہوں میں ہوں یا کوئی اور سب قانون کی نظر میں برابر ہیں، ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں نیوی کا اس سے تعلق نہیں اور دوسری طرف اس کے ٹرسٹی نیول چیف ہے، کس نے نیول چیف کو ٹرسٹی ہونے کی تجویز دی؟ اگر زمین قبضہ کا الزام لگ جائے تو ایف آئی آر کس پر ہوگی؟ اس ٹرسٹ ڈیڈ کے تحت کیا ٹرسٹیز کے خلاف ایف آئی آر نہیں ہو گی؟۔
وکیل قمر افضل نے جواب دیا کہ ایف آئی آر ٹرسٹیز کے خلاف ہی ہو گی، نیول چیف انفرادی حیثیت میں ٹرسٹی ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیول چیف کی انفرادی حیثیت میں نہیں۔
وکیل نے کہا کہ یہ ٹرسٹ صرف نیوی والوں کے لیے ہے نو پرافٹ نو لاس (نہ نفع نہ نقصان) کی بنیاد پر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ان لوگوں نے فی سبیل اللہ یہ اسکیم شروع کی ہے، اس ٹرسٹ کا کبھی آڈٹ ہوا؟۔
وکیل ملک قمر افضل نے جواب دیا کہ بالکل آڈٹ ہوا ہو گا اس حوالے سے ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دوں گا۔
درخواست گزار وکلا نے تعمیرات روکنے کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی نشاندہی کرتے ہوئے کل رات اور آج بھی تعمیرات جاری ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین سی ڈی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے پوچھا کہ چئیرمین سی ڈی اے نیول فارمز اور نیوی سیلنگ کلب کی قانونی حیثیت بتائیں، نیول فارمز کی تعمیرات روکنے کے حکم پر عمل نہ ہوا تو ٹرسٹیز کو سمن کریں۔ عدالت نے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کے خلاف کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔