پاکستان میں اب تک مختلف ممالک کی تین ویکسینزکو ہنگامی حالات میں استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔فائل فوٹو
پاکستان میں اب تک مختلف ممالک کی تین ویکسینزکو ہنگامی حالات میں استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔فائل فوٹو

کورونا ویکسین غریبوں کی پہنچ سے باہر

رپورٹ:احمد نجیب زادے
کورونا وائرس کی روک تھام کیلیے بنائی گئی ویکسین دنیا بھر کے غریب افراد کی دسترس سے باہر ہوگئی۔ روس، امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک نے دوا کی کم از کم قیمت 30 ڈالر اور زیادہ سے زیادہ 125ڈالر مقرر کردی۔

بتایا جا رہا ہے کہ ویکیسین کی فراہمی قدرے محفوظ اور موثر ہے اور انتہائی مہنگے طریقہ کار کے تحت اس ویکسین کو منفی 30 سے 45 اور کئی ممالک میں اس کو 80 سینٹی گریڈ پر منجمد رکھنے کیلئے خاص ریفریجریٹرز یا فریزرز اور اس کی سپلائی کیلئے اسپیشل کنٹینرز بنائے گئے ہیں۔ جس سے اس کی قیمت اور لاگت دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ادھر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم نے خبردار کیا ہے کہ امیر ممالک کی کورونا ویکسین کے حصول کی دوڑ میں غریبوںکے روند دیئے جانے کا خدشہ ہے۔

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کا کہنا ہے کہ دور دراز غیر ترقی یافتہ علاقوں اور انتہائی سرد ڈیپ فریززکی عدم دستیابی کی وجہ سے خدشہ ہے کہ بہت سے ایشیائی ممالک کورونا ویکسین مارکیٹ میں آ جانے کے باوجود بھی اس بحران سے نہیں نکل سکیں گے۔ کیوںکہ غریب ممالک کا بجٹ اورکورونا منظر نامہ میں معاشی مسائل ان کی کورونا ویکسین کی خریداری کی سکت ختم کرچکے ہیں۔

اگرچہ امریکہ، روس، برطانیہ سمیت دنیا بھر میں اس وقت خوشی کا اظہار کیا گیا جب دوا ساز کمپنی فائزر نے کورونا کی ایسی ویکسین بنانے کا اعلان کیا جو ابتدائی آزمائشی نتائج کی بنیاد پر 90 فیصد سے زیادہ موثر تھی۔ تاہم پھر بھی ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ یہ ویکسین اگرمنظور ہو بھی گئی تو کوئی ایسا جادو نہیں کر سکے گی کہ کورونا کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔

نئی کورونا ویکسین جس جینیاتی مواد سے تیارکی گئی ہے اسے منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے بھی کم درجہ حرارت پر محفوظ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ویکسین کے ساتھ جڑی یہ شرط ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ افریقہ اور لاطینی امریکہ جیسے گرم ممالک کیلئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ دنیا کے تقریباً 70 فیصد افراد کو یہ ٹیکا لگایا جانا چاہیے اور ایشیا میں دنیا کی ایک تہائی آبادی پہلے ہی سے موجود ہے۔ برطانوی دوا ساز ادارے فائزر نے رائٹرز کو بتایا کہ اس نے ویکسین کی آمدورفت، اسٹوریج اور درجہ حرارت کی مستقل نگرانی میں مدد کیلئے تفصیلی پلان تیار کیے ہیں۔

دوسری جانب جنوبی کوریا اور جاپان جیسی ترقی یافتہ اقوام بہرحال اس ویکسین سے توقعات وابستہ کر رہی ہیں۔ جاپان، ایشیا پیسیفک کے ان تین ممالک میں شامل ہے جنہوں نے فائزر بائیو ویکسین کی فراہمی کیلئے 120 ملین خوراکوں کے معاہدے پر دستخط کردیئے ہیں۔ آسٹریلیا نے 10 ملین خوراکیں حاصل کی ہیں اور چین نے بھی 10 ملین خوراکیں حاصل کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔

ادھر جنوبی کوریا کی بیماریوں پر قابو پانے کی ایجنسی کے ڈائریکٹر جون جون نے کہا کہ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں کورونا ویکسنیشن کیسے کام کرتی ہے؟جنوبی کوریا کو حال ہی میں کولڈ اسٹوریج کی بڑی خرابی کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب اسے فلو ویکسین کی تقریباً پچاس لاکھ خوراکیں ضائع کرنا پڑی تھیں۔ انڈونیشیا میں کورونا رسپانس ٹیم کے سربراہ ایلنگ گا ہارارتو کے مطابق ابھی یہ ویکسین ان کے زیرغورنہیں ۔ویتنام کے نائب وزیر اعظم وو ڈک ڈیم نے بیان دیا کہ یہ ویکسین امیروں کیلیے ہے اور ہم غریبوں کیلئے اس کا حصول دور کی کہانی ہے۔

بین الاقوامی چلڈرن ایمرجنسی فنڈ نے کہا ہے کہ عالمی جامع آپریشن کے تحت اگلے سال ترقی پذیر کو ممالک کو کورونا وائرس کی ویکسین کی 2 ارب کے قریب ڈوز پہنچائی جائیں گی۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا ہے کہ یہ دو ارب ویکسین ڈوز کن ممالک میں تیار کئے جائیں گے اور کب غریب ممالک کو دیئے جائیں گے۔

یونیسیف نے کہا کہ وہ عالمی ادارہ صحت کے ساتھ گلوبل کووڈ-19 ویکسین ایلوکیشن پلان، کوویکس (COVAX) کے تحت غریب ممالک جیسا کہ برونڈی، افغانستان اور یمن کو ویکسین اورایک ارب سرنجز کی فراہمی کیلئے 350 سے زائد ایئر لائنز اور فریٹس ایئر کارگو کمپنیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ رواں ہفتے کے اواخر میں ہونے والے جی 20 اجلاس میں دنیا کی 20 معیشتوں کے رہنماؤں نے کورونا وائرس کی ویکسین اور ٹیسٹ کی یکساں تقسیم یقینی بنانے کے عزم کا اظہارکیا، تاکہ غریب ممالک پیچھے نہ رہیں۔

ادھرامریکہ، روس اور یورپی ممالک میں کورونا ویکسین کی فراہمی کے آغاز پر سربراہ عالمی ادارہ صحت ٹیڈروس ایڈہانوم نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث پیدا بحران کے ایک سال بعد دنیا کو ویکسین کی شکل میں اُمید کی کرن دکھائی دی ہے۔ لیکن انہوں نے متنبہ کیا کہ ایسی دنیا ناقابل قبول ہوگی کہ جہاں امیر اور طاقتور طبقے کی ویکسین کے حصول کی دوڑ میں غریب اور پسماندہ افراد رُل جائیں۔

عالمی ادارہ صحت کے علاقائی ڈائریکٹر برائے یورپ ڈاکٹر ہانس کلیوج نے کہا تھا کہ ابتدائی مراحل میں ویکسین کی سپلائی انتہائی محدود ہونے کے باعث ممالک کو اپنی ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ عمر رسیدہ افراد اور طبی عملے کے علاوہ پیچیدہ امراض کے شکار افراد کو سب سے پہلے ویکسین لگنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں اقوامِ متحدہ کے چیف نے تمام ممالک اوربالخصوص غریب ممالک میں کورونا کی موثر ویکسین کی منصفانہ ترسیل پر بھی زوردیا۔