نیب راولپنڈی میں شوگر اسیکنڈل کے حوالے سے تحقیقات اور طلبیوں کا سلسلہ جاری ہے۔فائل فوٹو
نیب راولپنڈی میں شوگر اسیکنڈل کے حوالے سے تحقیقات اور طلبیوں کا سلسلہ جاری ہے۔فائل فوٹو

استعفے مولانا کے پاس جمع کرانے کی نواز شریف کی تجویز مسترد

امت رپورٹ
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہی اجلاس میں نواز شریف کی جانب سے تمام پارٹیوں کے ارکان کے استعفے مولانا فضل الرحمن کو جمع کرانے کی تجویز دی گئی تھی، جو مسترد کر دی گئی۔

اجلاس کی اندرونی کہانی سے واقف ذرائع نے بتایا کہ لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک میٹنگ میں شریک سابق وزیر اعظم نے تجویز دی تھی کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو اجتماعی استعفے پیش کرنے سے قبل اپوزیشن پارٹیوں کے تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی یہ استعفے مولانا فضل الرحمن کے پاس جمع کرا دیں جو پی ڈی ایم کے سربراہ بھی ہیں تاکہ حکومت کو واضح پیغام چلا جائے کہ اپوزیشن اجتماعی استعفے دینے میں سنجیدہ ہے اور محض ہوائی باتیں نہیں کر رہی ہے۔

ذرائع کے بقول نواز شریف کی اس تجویز سے بیشتر پارٹیوں نے اتفاق کیا۔ تاہم اختلاف رائے اس وقت سامنے آیا، جب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بذریعہ ویڈیو لنک قدرے تاخیر سے اجلاس کو جوائن کیا۔

واضح رہے کہ یہ تاثر عام تھا کہ پیپلز پارٹی اسمبلیوں، بالخصوص صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے سے گریزاں ہے۔ لیکن پی ڈی ایم کے اجلاس میں پیپلز پارٹی نے اپوزیشن اتحاد کی دیگر پارٹیوں کے متفقہ فیصلوں کے ساتھ چلنے کا اظہار کرتے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کے آپشن پر عمل کرنے کی توثیق کردی تاہم آصف علی زرداری نے اجتماعی استعفے مولانا فضل الرحمن کے پاس جمع کرانے کی تجویزکی مخالفت کی۔

عوامی نیشنل پارٹی نے بھی اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی تائید کی۔ بعد ازاں اتفاق رائے سے قرار پایا کہ تمام اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اکتیس دسمبر تک اپنے استعفے پارٹی قائدین کے پاس جمع کرائیں گے۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن نے اس متفقہ فیصلے کا اعلان کیا۔
قومی اسمبلی کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں سے بھی استعفے دینے سے متعلق پیپلز پارٹی کے فیصلے کے بارے میں جب بلاول ہائوس تک رسائی رکھنے والے ایک ذریعہ سے پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپوزیشن اتحاد کے ساتھ چلے۔ بیک ڈور چینل سے چلنے والی زرداری کی بات چیت ناکام ہو چکی ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی، پی ڈی ایم کے متفقہ فیصلوں سے الگ لائن لیتی ہے تو تنہائی کا شکار ہو جائے گی۔ ذریعہ کے بقول جہاں تک مولانا فضل الرحمن کے پاس استعفے جمع کرانے کی تجویز سے انکارکا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی نہیں چاہتی کہ اس کے ارکان اسمبلی کے استعفے پارٹی کنٹرول سے نکل کرکسی تیسرے فریق کے پاس چلے جائیں۔

دوسرا یہ کہ خود پیپلز پارٹی کے اپنے بہت سے ارکان اسمبلی کو اس تجویز پر عمل سے اعتراض ہوتا۔ تاہم اپنی پارٹی قیادت کے پاس استعفے جمع کرانے پر کسی رکن کو شکایت نہیں ہوگی۔ ذریعہ کے مطابق خاص طور پر اے این پی کے ارکان کسی صورت مولانا فضل الرحمن کے پاس اپنے استعفے جمع کرانے پر راضی نہیں ہوتے۔ اے این پی اگرچہ اس وقت اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہے۔ لیکن وہ کے پی کے میں جے یو آئی کی سخت سیاسی حریف ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کے حوالے سے پون گھنٹے تک ڈسکشن چلتی رہی۔ اس بحث میں نواز شریف اور آصف زرداری نے بھی اپنا ان پٹ دیا۔ بنیادی نکتہ یہی تھا کہ اگر جنوری میں اعلان کردہ شیڈول کے مطابق لانگ مارچ کیا جاتا ہے تو کیا موسم اس کی اجازت دے گا؟ اکثریت فروری میں لانگ مارچ کرنے کی حامی تھی۔ تاہم طویل بحث و مباحثے کے بعد لانگ مارچ کی حتمی تاریخ پر اتفاق رائے نہ ہو سکا جس کے بعد یہ معاملہ اسٹیئرنگ کمیٹی پر چھوڑ دیا گیا۔

آج بدھ کو ہونے والے اجلاس میں اسٹیرنگ کمیٹی لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔ اسٹیئرنگ کمیٹی کے ارکان اپنے قائدین کی تجاویز اجلاس میں رکھیں گے۔ یاد رہے کہ پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کا روڈ میپ بھی اسٹیئرنگ کمیٹی نے تشکیل دیا تھا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اجلاس میں ابھی اجتماعی استعفے پارٹی قائدین کے پاس جمع کرانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ یہ استعفے کب اسپیکرقومی اسمبلی کو دیے جائیں گے؟ اس کا فیصلہ بھی اسٹیئرنگ کمیٹی نے ہی کرنا ہے۔

پی ڈی ایم اجلاس میں لاہور جلسے کے بعد آنے والے خلا کو پُر کرنے کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔ ذرائع کے مطابق تمام شرکا کا اس پر اتفاق تھا کہ تحریک کا مومنٹم برقرار رکھنے کے لئے اس گیپ کے عرصے میں کوئی تگڑا روڈ میپ دیا جانا چاہئے۔ تاکہ لانگ مارچ تک کارکنوں کے لہو کو گرم رکھا جائے۔ تمام رہنمائوں کی تجاویز کے بعد اتفاق کیا گیا کہ لاہور جلسے کے بعد اکتیس دسمبر تک چاروں صوبوں کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹروں میں جلسے اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ پہیہ جام ہڑتال اور شٹر ڈائون کی کالز دی جائیں گی۔ اس سلسلے میں ملک بھر کی تاجر تنظیموں اور ٹرانسپورٹ تنظیموں کے علاوہ وکلا تنظیموں سے بھی رابطے کئے جائیں گے۔ تاکہ ہڑتال کو موثر بنایا جا سکے۔ لاہور جلسے کے بعد جلسوں، مظاہروں اور ہڑتالوں کا شیڈول اسٹیرنگ کمیٹی بنائے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ پی ڈی ایم اجلاس کے دوران ویڈیو لنک پر نواز شریف کی موجودگی کے موقع پر ان کی وطن واپسی کا معاملہ بھی ڈسکس ہوا۔ آصف زرداری کا خیال تھا کہ تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے نواز شریف کا پاکستان آنا ضروری ہے۔ اس موقع پر یہ تجویز بھی دی گئی کہ اگر نواز شریف کو واپسی پر گرفتار کیا جاتا ہے تو صرف نون لیگ نہیں۔ بلکہ پوری پی ڈی ایم قیادت ان کے ساتھ کھڑی ہوگی تاہم نواز شریف نے اس حوالے سے کوئی واضح جواب نہیں دیا اور کہا کہ وہ اس بارے میں پارٹی رہنمائوں سے مشورہ کریں گے اور ویسے بھی فی الحال ان کا علاج چل رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق مریم نواز نے موجودہ حالات میں نواز شریف کی واپسی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم لندن سے بیٹھ کر زیادہ موثر طریقے سے پارٹی کو گائیڈ کر رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں وہ خود اور پارٹی کے دیگر رہنما پوری طرح میدان میں ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد میں نون لیگ کے مرکزی سیکریٹریٹ میں چار گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے پی ڈی ایم اجلاس میں اور بہت سے ایسے معاملات بھی زیر بحث آئے۔ جن کا ذکر مولانا فضل الرحمن کی مختصر پریس کانفرنس میں نہیں کیا گیا۔

اجلاس میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کے علاوہ یہ بھی ڈسکس ہوا کہ صرف لانگ مارچ ہی ہوگا یا اس کے ساتھ دھرنا بھی دیا جائے گا اور یہ کہ اگر دھرنا دیا جاتا ہے تو یہ وفاقی دارالحکومت کے کس مقام پر دیا جانا چاہئے۔ اس حوالے سے ڈی چوک، فیض آباد اور کشمیر ہائی وے سمیت چند دیگر مقامات کا ذکر کیا گیا۔ تاہم طے پایا کہ پہلے لانگ مارچ کی تاریخ کا حتمی فیصلہ ہو جائے۔ اس کے بعد دھرنے کے مقام اور یہ کہ دھرنا کس شہر سے شروع کیا جانا چاہیے۔ ان تمام باتوں پر بھی اتفاق رائے کرلیا جائے گا۔