بی جے پی کے’’لو جہاد‘‘ قانون کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا شروع کر دیا-فائل فوٹو
بی جے پی کے’’لو جہاد‘‘ قانون کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا شروع کر دیا-فائل فوٹو

بھارت۔ نو مسلم بیویاں شوہروں کے دفاع میں آگئیں

رپورٹ:علی مسعود اعظمی
بھارتیہ جنتا پارٹی کے بنائے ہوئے قانون ’’love-jihad‘‘ کو مسلمانوں کیخلاف ہتھیارکے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ریاست اتر پردیش میں ایسے مسلمان مردوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کر دیا گیا ہے، جنہوں نے ہندوم دھرم چھوڑ کراسلام قبول کرنے والی خواتین سے شادیاں کیں۔ جبکہ نومسلم خواتین کو بھی ان کے ہندو رشتہ داروں کے بیانات پر حراست میں لیا جارہا ہے۔ ان میں سے اکثر کے بچے ہیں اور وہ خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔

متنازع آرڈیننس پر قانونی حلقوں نے سوالات بھی اٹھائے تھے۔ لیکن وزیر اعلیٰ یوگی کی حکومت نے ان اعترضات کو بغیر کسی وضاحت کے مسترد کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس کے کریک ڈائون میں اب تک سو مسلمان شوہروں کو گرفتار کرکے جیل اور ان کی بیویوں کو حراست میں لے کر شیلٹر ہوم روانہ کردیا گیا ہے۔ جبکہ پوری ریاست میں ہندو رشتہ داروں کی شکایات پر 22 ہندو مسلم شادیاں جبری طور پر رکوائی جاچکی ہیں اور ان سے تفتیش کی جارہی ہے کہ کیا مسلمان دولہا نے اپنی ہونے والی ہندو دولہن کو ورغلایا، دھمکایا یا دبائو کا نشانہ بنایا ہے؟۔

Muslims targeted under Indian state's 'love jihad' law | India | The  Guardian

انڈین ایکسپریس نے بھی تصدیق کی ہے کہ جن شادیوں سے ہندو رشتہ دار ناراض تھے، اب اتر پردیش پولیس کی جانب سے ان ناراض رشتہ داروں کے بیانات کی روشنی میں مقدمات درج کر کے طلاق کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔ جو مسلمان مرد اپنی نو مسلم بیویوں کو طلاق دینے سے انکار کرتے ہیں تو ان کو ’’لو جہاد‘‘ کے قانون کے تحت گرفتار اور مقدمات کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔

دوسری جانب ’لو جہاد‘ کے قانون کے استعمال پر نومسلم بیویاں بھی شوہروں کے دفاع میں میدان میں آگئی ہیں اور انہوں نے متعلقہ پولیس اسٹیشنوں اور عدالتی فورمز پر اپنے حلفیہ بیانات اور درخواستوں کی مدد سے یہ ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے ساتھ خوش ہیں اور ان کو کسی نے بھی شادی کیلئے مجبور نہیں کیا۔ پولیس کو بیانات جمع کرانے والی ہندو لڑکیوں میں پنکی (مسکان)، سیتاکماری (سیما)، دامنی (کوثر)، کوشل کماری (سلمیٰ)، اروندھتی کماری (عائشہ)، کاجل (ثمینہ) سمیت درجنوں نو مسلم خواتین شامل ہیں۔

Police in India target Muslims under 'love jihad' law - World - Business  Recorder

مرادآباد پولیس کے ایس ایس پی پربھارکر چوہدری نے بتایا ہے کہ100 کیسوں میں ہندو رشتہ دارو ں نے لو جہاد کی شکایات کی تھیں اور مسلمان نوجوانوں کو گرفتارکرکے ان کی سابقہ ہندو اب نو مسلم بیویوں کو واپس ہندو گھرانوں میں لانے کی درخواستیں دی تھیں جس پر متعلقہ پولیس کے اعلیٰ حکام نے انکوائری اور ایکشن ‘‘کا کہا تھا۔ لیکن جس لڑکی کے شوہر کو گرفتار کرو، وہ عدالت اور ایس ایس پی آفس پہنچ جاتی ہے اور حلفیہ و تحریری بیان میں شوہر کے ساتھ رضا و خوشی سے رہنے اور شادی کا اقرار نامہ درج کروارہی ہے۔

مراد آباد کی ایک مقامی عدالت میں بائیس سالہ نومسلم لڑکی پنکی (مسکان) نے اپنے وکیل کے توسط سے درخواست جمع کروائی ہے کہ اس کی عمر بائیس برس ہے اور رواں سال جولائی میں اس نے اپنے پڑوسی مسلمان نوجوان راشد علی سے برضا ورغبت شادی کی تھی۔ جس کی مخالفت اس کے گھر والوں نے کی تھی۔ لیکن راشد انتہائی اچھا انسان ہے اور اس نے اس پر یا اس کے گھر والوں پر جہیز یا کسی اور مقصد کیلیے دبائو نہیں ڈالا اور سادگی سے شادی کی۔ اب راشد علی کو وزیراعلیٰ کے حکم پراس کے رشتہ داروں کے بیان کی روشنی میں مقدمہ درج کرکے گرفتار کرلیا گیا ہے اور اسے ہندو شیلٹر ہوم بھیج دیا گیا ہے۔

In Modi's India, the 'Love Jihad' Myth Is Made Law | by Menaka Guruswamy |  The New York Review of Books

نومسلمہ نے درخواست میں لکھا کہ ’’میں حلفیہ اقرار کرتی ہوں کہ مجھ پر یا میرے شوہر اور ہماری شادی پر لو جہاد قانون کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔ اس لئے مجھے گھر جانے اور راشد علی کو رہائی دینے کی اجازت دی جائے‘‘۔

اس کیس کی ابتدائی تفتیش اے ایس پی مراد آباد ودیا ساگر مشرا نے کی اور میڈیا کو بتایا کہ لو جہاد قانون کے تحت کئی معاملے درج ہیں۔ پنکی کیس میں اس کی ماں نے مقدمہ درج کروایا ہے۔ لیکن پنکی مسلمان شوہر کے ساتھ خوش ہے اور اس نے عمر، تعلیم اور تبدیلی مذہب سمیت نکاح کی دستاویزات پیش کی ہیں۔ جس پراسے متعلقہ عدالتی فورم پر پیش کردیا گیا ہے۔ اب عدالت کی مرضی ہے کہ وہ لو جہاد قانون کے تحت کارروائی کو کالعدم قرار دے یا کچھ ایکشن لے۔

Husband Jailed for 'Love Jihad', 22-yr-old Pregnant Woman Sent to In-Laws'  House After Court Order

واضح رہے کہ لکھنئو کی مقامی سماجی شخصیت برجیش کمار کا کہنا ہے کہ لو جہاد قانون صرف مسلم کمیونٹی کیخلاف مودی، یوگی حکومت کا ہتھیار ہے۔ جس سے اب تک 100 مسلمانوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ لیکن ان مقدمات کے باوجود ایک کیس میں بھی شوہر یا بیوی کو ایک دوسرے سے جدا موقف والا نہیں پایا گیا۔ سو کی سو نو مسلم بیویوں نے پولیس، شیلٹرز ہومزاورعدالتوں کو بتایا کہ انہوں نے مسلمان نوجوانوں سے راضی خوشی شادیاں کیں اور ان پر مسلمان ہونے کیلیے کسی قسم کا دبائو نہیں ڈالا گیا۔

برطانوی جریدے گارجین نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شمالی ہندوستان کی ریاست اتر پردیش میں لو جہاد قانون کو صرف مسلمانوں کیخلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ مقامی وکلا کے مطابق اس آرڈیننس کے مطابق شادی کیلئے دھوکا، گمراہی، لالچ یا زبردستی مذہب تبدیل کرانے پر زیادہ سے زیادہ دس سال قید اور 25 ہزار روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ ایک غیر ضمانتی جرم ہوگا اور جو لوگ مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کام کیلیے ضلعی مجسٹریٹ کو دو ماہ قبل تحریری اطلاع دینی ہو گی۔

UP's Anti-Love Jihad Ordinance

یو پی الٰہ آباد (اب پریاگراج) میں مقامی مسلما ن ایڈووکیٹ حشمت انصاری کا کہنا ہے کہ پولیس اور مقامی ہندو یوگی حکومت کے متنازع قانون کی آڑ میں ان نومسلم لڑکیوں کے ناراض رشتہ داروں سے رابطے کر رہے ہیں اور ان کی درخواستوں پر مسلمان شوہروں کیخلاف مقدمات درج اور ان کو گرفتار کروا رہے ہیں۔ صرف الٰہ آباد میں درج لو جہاد قانون کے تحت 22 گرفتاریاں ہوچکیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام مسلمان شوہروں کی نو مسلم بیویاں شوہروں کے دفاع میں کھڑی ہوگئی ہیں۔

ادھر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اورماہر قانون پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ اترپردیش حکومت کی طرف سے لایا گیا لو جہاد قانون بھارتی آئین اورانسانی حقوق کی بنیادی روح کیخلاف ہے۔ بھارتی آئین کسی بھی مذہب کے دو بالغ لڑکے لڑکی یا مرد و عورت کو باہمی رضامندی سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ مذہب یا ذات کی بنیاد پر اس پر پابندی نہیں عائد کی جاسکتی۔

ادھراترپردیش کے سابق ڈی آئی جی وکرم سنگھ راٹھور کا کہنا ہے کہ اس نئے اور بظاہر سیاسی قانون کا جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بنانے کیلیے غیر ضروری طور پر نئے قانون لا کر صرف رائے عامہ اور اکثریتی عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔