امت رپورٹ:
ملک بھر کی تمام ٹریڈ یونینز کی قیادت میں سرکاری ملازمین کا نیا طوفان وفاقی دارالحکومت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ کل پیر کی صبح اسلام آباد میں اس طوفان کے شدید جھکڑ متوقع ہیں۔’’امت‘‘ کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق15 فروری کو پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے کے تمام انتظامات مزدور رہنمائوں نے مکمل کر لئے ہیں۔ دوسری جانب اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت نے بھی خاموشی سے اپنی حکمت عملی طے کر لی ہے۔
ہفتے کے روز ملک کے اکسٹھ سرکاری اداروں سے تعلق رکھنے والی ٹریڈ یونینز رہنمائوں کا اہم اجلاس ہوا۔ جس میں دھرنے سے متعلق تیاری کو حتمی شکل دی گئی اور حکومتی ردعمل کائونٹر کرنے کی خفیہ حکمت عملی طے کی گئی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک بھر سے روانہ ہونے والے سرکاری ملازمین کے قافلے پیر کی صبح پہلے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے جمع ہوں گے۔بعد ازاں ایک بڑی ریلی کی شکل میں پارلیمنٹ کی طرف روانہ ہوجائیں گے۔ اگرچہ حکومت کے ممکنہ کریک ڈائون سے بچنے اور دھرنے کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی سامنے نہیں لائی گئی۔
’’امت‘‘ کو مستند ذرائع نے بتایا ہے کہ آل پاکستان ایمپلائز یونینز لیبر تحریک کی جانب سے پندرہ فروری کو اعلان کر دہ دھرنے کے قائدین نے جو حکمت عملی بنائی ہے وہ دس فروری کو وفاقی سول سرونٹس کے احتجاج سے یکسر مختلف ہے۔ جس میں مرکزی قائدین کی ایک رات پہلے ہی گرفتاری کے باعث ملازمین کو لاوارث حالت میں احتجاج کرنا پڑا تھا۔ قیادت کے بغیر ہونے والے اس احتجاج میں مرکزی اسٹیج نہیں تھا۔ ملازمین نے اپنے طور پر مختلف مقامات پر عارضی اسٹیج بنا کر تقاریر کی تھیں۔ تاہم لیبر تحریک نے پارلیمنٹ کے گیٹ کے سامنے مرکزی اسٹیج بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر اسٹیج بنانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اسی مقام کو مرکزی جلسہ گاہ کی شکل دیدی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق مزدور قائدین نے دھرنے کو ہر صورت کامیاب بنانے کے لیے پلان اے، بی اور سی تشکیل دیا ہے۔ جس کے تحت’’ اے ٹیم‘‘ میں مرکزی رہنمائوں کو شامل کیا گیا ہے، جو دھرنے کو لیڈ کریں گے۔ اگر صف اول کی قیادت کو گرفتار کر لیا جاتا ہے تو پھر’’بی ٹیم‘‘میں شامل دوسرے درجے کی قیادت کمان سنبھالے گی اور دوسرے درجے کی قیادت کو بھی حراست میں لے لیا جاتا ہے تو ’’سی ٹیم‘‘ کے ارکان میدان عمل میں ملازمین کی رہنمائی کریں گے۔ یہ تینوں ٹیمیں تشکیل دیدی گئی ہیں۔ ہر ٹیم میں کم از کم دس ارکان شامل ہیں، لیکن ان ارکان کے نام مخفی رکھے گئے ہیں۔
ذرائع نے اتنا اشارہ ضرور دیا ہے کہ ’’اے ٹیم‘‘ میں وہ مرکزی قائدین شامل ہوں گے، جو تحریک کو لیڈ کرنے کے لئے تشکیل دی گئی رہبر کمیٹی کے ارکان بھی ہیں۔ جبکہ ٹیم بی اور سی میں ایسے نام شامل کئے گئے ہیں، جو رہبر کمیٹی کا حصہ نہیں اور ان کے چہرے بھی حکومت کے لئے اجنبی ہیں۔ ذرائع کے مطابق لیبر تحریک کے سربراہ حاجی اسلم خان اور دیگر تئیس ارکان، حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شریک رہے ہیں۔ لہٰذا ان سب کو حکومت جانتی ہے۔ ان کا ڈیٹا بھی حکومتی اداروں کے پاس موجود ہے۔ جبکہ بی اور سی ٹیم کے ارکان زیادہ سرگرم نہیں اور حکومت ان کے چہروں سے زیادہ آشنا بھی نہیں۔ لہٰذا گرفتاریوں کی ہٹ لسٹ میں ان کے نام شامل کئے جانا مشکل ہیں۔ ذرائع کے مطابق مشاورتی اجلاس میں ممکنہ گرفتاریوں سے بچنے کیلئے مرکزی قائدین کے زیر زمین جانے کی تجویز بھی زیر غور آئی۔ تاہم اکثریت کا کہنا تھا کہ اہم رہنمائوں کے انڈر گرائونڈ جانے سے ایک تو ملازمین میں مایوسی پھیل سکتی ہے اور دوسرا یہ کہ موجودہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں انڈر گرائونڈ جانا ممکن نہیں رہا۔
دھرنے کے شرکا کو متحرک کرنے کے لیے مسلسل موبائل فون یا بذریعہ انٹرنیٹ رابطے میں رہنا پڑتا ہے۔ زیر زمین جانے کی صورت میں موبائل فونز کو بند کرنا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں احتجاجی ملازمین اور قائدین کے آپس کا رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ چنانچہ ٹریڈ یونین رہنمائوں نے انڈر گرائونڈ جانے کی تجویز اکثریت سے مسترد کر دی۔ لیبر تحریک کے اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دھرنے میں دو سے تین لاکھ سرکاری ملازمین شریک ہوں گے۔ تاہم اگر بیان کردہ تعداد میں سے تیس، بتیس فیصد ملازمین بھی ریڈ زون میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو پھر حکومت کے لئے صورتحال کو قابو کرنا مشکل ہو جائے گا۔
ادھر حکومتی تیاریوں کے حوالے سے اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی بی، اسپیشل برانچ اور پولیس کی مدد سے جمع کئے گئے اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر لیبر تحریک کے مرکزی رہنمائوں کی فہرستیں ترتیب دی جا چکی ہیں۔ ان رہنمائوں کو دھرنے کی رات یا اس سے پہلے سولہ ایم پی ا وکے تحت حراست میں لینے پر وزارت داخلہ میں مشاورت جاری ہے۔ اسی طرح پنجاب کے چھتیس اضلاع کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کی جا چکی ہیں کہ وہ اپنے متعلقہ اضلاع سے ملازمین کے قافلے روکنے کا عمل یقینی بنائیں۔ خیبر پختون کی صوبائی حکومت کو بھی اسی نوعیت کی ہدایات دی گئی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ دھرنے سے قبل جن ٹریڈ یونین رہنمائوں کو سولہ ایم پی او کے تحت حراست میں لینے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ان میں لیبر تحریک کے سربراہ حاجی اسلم خان، پی آئی اے کے رمضان لغاری، سول ایوی ایشن کے شیخ خالد محمود، او جی ڈی سی ایل کے انصر وڑائچ، راجہ سلیم اور ملک اخلاق، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے سید عارف شاہ، سی ڈی اے کے راجہ اشفاق اور عزت کمال پاشا، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین کے ملک چنگیز، فیڈرل ٹیچرز یونین کے راجہ عمران، ریلوے کے سرفراز خان، واپڈا کے حاجی اقبال اور خورشید خان، لیڈی ہیلتھ ورکرز خیبر پختون کی صدر امرینہ افتخار، پمز کے ڈاکٹر اسفند یار، آل پاکستان گورنمنٹ ایمپلائز کنفیڈریشن کے حاجی مناف، خیبر پختون گورنمنٹ ایمپلائز کونسل کے صدر حاجی ریاض خان، آل پاکستان پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر شرافت اللہ خان اور میونسپل کارپوریشن پنجاب کے راجہ مجید شامل ہیں۔
دوسری جانب آل پاکستان ایمپلائز یونینز لیبر تحریک کے سربراہ اسلم خان کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پیرکے روز پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ہر صورت دھرنا دیا جائے گا۔ حکمرانوں کی مزدور دشمنی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ دس فروری کو سرکاری ملازمین کے ساتھ ریاستی دہشت گردی اس کا واضح ثبوت ہے۔ حاجی اسلم خان کے بقول دس فروری کے احتجاج کے نتیجے میں جو معاہدہ ہوا ہے، اگر اس پر عمل بھی ہوگیا تو محض پانچ سے دس فیصد سرکاری ملازمین کو فائدہ پہنچے گا۔ باقی نوے فیصد کے قریب ملازمین محروم رہیں گے۔ ان سرکاری ملازمین کے حقوق لینے کیلیے ہی اسلام آباد کا رخ کیا جارہا ہے۔ حاجی اسلم خان کے مطابق آئی ایم ایف کے دبائو پر حکومت دس اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کر چکی ہے۔ حکومت کو اس فیصلے پر عملدرآمد کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی۔