اسلام آباد:سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کے تحت16 ہزار سرکاری ملازمین کو بحال کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے اور حکومتی تجاویز مان لی ہیں
جسٹس عمر عطا بندیال نے محفوظ کیا گیا فیصلہ پڑھ کر سنایا،سپریم کورٹ نے گریڈ ایک سے 7 تک کے ملازمین کو بحال کرنے کا حکم جاری کر دیا جبکہ گریڈ 8 سے اوپر کے ملازمین کو بحالی کیلیے محکمانہ امتحان پاس کرنا ہو گا ، مس کنڈکٹ ،کرپشن یا عدم حاضری پر نکالے گئے ملازمین کو بحال نہیں کیا جائے گا ۔
سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہناتھا کہ 2010 کا قانون آئین سے متصادم ہے ، 1996 سے 1999 تک برطرف ہونے والوں کو بحال کر دیا گیاہے ،عدالت نے مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرتے ہوئے ملازمین کی بحالی کا حکم دیا ۔سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہناتھا کہ ملازمین کی بحالی کا ایکٹ غیر قانونی رہے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں نظر ثانی اپیلیں منظور کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا ہے جس میں ان کا کہناتھا کہ مضبوط جمہوری نظام میں پالیمان ہی سپریم ہو تاہے ، پارلیمنٹ کو نیچا دکھانا جمہوری نظام کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے ، ایکٹ آف پارلیمنٹ کی شق 4 آئین سے متصادم ہے، پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمان سپریم ہے ، سیکشن 4 اور 10 آئن سے متصادم ہے ، جس کا جائزہ لینا چاہیے ۔
گزشتہ روزسماعت کے دوران جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نےاپنی تجاویزمیں تسلیم کیاکہ قواعدکومدنظرنہیں رکھاگیا،ان لوگوں کوجب نکالاگیاان کےحقوق متاثرہوئے،ہمیں تضادات میں نہیں پڑناچاہیے،ان لوگوں کوجب نکالاگیاان کےحقوق متاثرہوئے، ملازمین کی بھرتی کےوقت بھی قواعدوضوابط کی خلاف ورزی ہوئی،ملازمین سےہمدردی ہےمگرعدالت نےآئین وقانون کودیکھناہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال کا کہناتھا کہ سہولت بھی دیناہوگی تو آئین کےمطابق دیں گے،حکومتی تجاویزنہیں،آئین کےمطابق چلیں گے، آئین وقانون کےمطابق معاملےکاجائزہ لیں گے، فیصلہ وہی ہوگا جوآئین وقانون،عوام کےمفادمیں ہوگا،یقینی بناناہےسرکاری محکموں میں پچھلےدروازےسےتقرریاں نہ ہوں،حکومت کی تجاویز پرفیصلہ نہیں کریں گے۔
عدالت کا کہناتھا کہ حکومتی تجاویزکاجائزہ ضرورلیں گےلیکن فیصلہ آئین وقانون کےمطابق ہوگا،ملازمین کےبحالی کاقانون تقرریوں کےطےشدہ اصولوں کےمنافی ہے، معاونت کریں گےتوٹھیک بصورت دیگراپنافیصلہ سنائیں گے، لوگوں کوان کےبنیادی حقوق ملنےچاہئیں۔