امت رپورٹ:
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نااہلی، محض بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ اصل دو دھاری تلوار فارن فنڈنگ کیس کی شکل میں لٹک رہی ہے، جس میں چیئرمین تحریک انصاف اور صف اول کی پارٹی قیادت سمیت پینتالیس رہنماؤں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس کیس میں ناصرف عمران خان بلکہ پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ کو بھی تاحیات نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پارٹی کی رجسٹریشن منسوخی اور ممنوعہ فنڈز کی ضبطگی بھی خارج از امکان نہیں۔ اس اہم کیس کی سماعت قریباً دو ہفتے بعد چھ نومبر کو ہوگی۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ آخری سماعت ہوگی اور کیس منطقی انجام تک پہنچ جائے گا۔ اس سماعت میں الیکشن کمیشن پاکستان کیس کا فیصلہ محفوظ یا سنا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ انیس ستمبر کو الیکشن کمیشن پاکستان نے جہاں توشہ خانہ کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا (جو اب سنایا جاچکا ہے)، وہیں فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کو جاری شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرانے کے لئے مزید چھ ہفتوں کی مہلت دے کر کیس کی سماعت چھ نومبر تک ملتوی کردی تھی۔ عام توقعات یہی تھیں کہ ممنوعہ یا فارن فنڈنگ ضبطگی کے اس کیس میں تحریک انصاف کو مزید مہلت نہیں دی جائے گی۔ لہٰذا اس سماعت کو تحریک انصاف کے لئے ’’آخری موقع‘‘ کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ کیونکہ گزشتہ سماعتوں کے دوران پی ٹی آئی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے خود الیکشن کمیشن کے بنچ نے ریمارکس دیئے تھے کہ یہ کیس پچھلے آٹھ برس سے چل رہا ہے اور کتنی مہلت چاہئے؟ لیکن جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے، اس کے باوجود تحریک انصاف کو مکمل جواب جمع کرانے کے لئے چھ نومبر تک مہلت دیدی گئی تھی۔ تاہم اب ایک بار پھر اس سماعت کو تحریک انصاف کیلئے آخری موقع تصور کیا جارہا ہے اور غالب امکان ہے کہ اس کیس کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا جائے۔
فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن پاکستان نے یہ شوکاز نوٹس دو اگست کو سنائے جانے والے اس فیصلے کے بعد جاری کیا تھا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ ملتی رہی۔ شوکاز نوٹس پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے تحت جاری کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی فنڈز لینے والی کسی بھی پارٹی کے خلاف تعزیری کارروائی کرنے سے پہلے شوکاز نوٹس جاری کرنا ہوگا۔ یہ قانونی تقاضا پورا کیا جاچکا ہے۔ اب الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے جواب کا انتظار ہے، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے سزا کا تعین کرنا ہے۔ جس میں ممنوعہ فنڈز کی ضبطگی سرفہرست ہے۔
فارن فنڈنگ کیس کی جزئیات سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ایف آئی اے اس قدر ٹھوس مواد جمع کرچکی ہے کہ عمران خان اور دیگر پارٹی رہنمائوں کا بچنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اس کیس میں عمران خان اور ان کے قریبی دوستوں سمیت پارٹی کے پینتالیس رہنماؤں کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں۔ ان میں عمران اسماعیل، شاہ فرمان، اسد قیصر، میاں محمود الرشید، نجیب ہارون، ثمر علی خان، سیما ضیا، قاسم سوری، علی زیدی، خرم شیرزمان، سردار اظہر طارق، سیف اللہ نیازی، یونس علی رضا، عامر محمود کیانی، طارق شفیع، طارق شیخ، حامد زمان، سراج احمد، جاوید عمر، بلال احمد غفار، ارسلان فیصل مرزا ، فردوس شمیم نقوی، منظور احمد چوہدری، مبشر احمد اور دیگر شامل ہیں۔ جبکہ خفیہ اکاؤنٹس اسکینڈل میں صدر مملکت عارف علوی کا نام بھی شامل ہے۔ تاہم فی الحال انہیں بطور صدر استثنیٰ حاصل ہے۔ لہٰذا ان کے خلاف ایف آئی اے انکوائری شروع نہیں کرسکی ہے۔ کراچی کے ایک بینک میں ’’پی ٹی آئی، ایس جی سیکریٹریٹ‘‘ کے نام سے اکاؤنٹ کھولا گیا تھا، جسے الیکشن کمیشن سے چھپایا گیا۔ اس اکاؤنٹ میں تین کروڑ روپے کے قریب رقوم آئی تھیں۔ یہ اکائونٹ عارف علوی کی تحریری درخواست پر کھولا گیا تھا۔ جبکہ سابق گورنر عمران اسماعیل، فردوس شمیم نقوی اور ثمر علی خان اکاؤنٹ ہولڈر تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ کیس اور فارن فنڈنگ کیس کاکوئی موازنہ نہیں بنتا۔ توشہ خانہ کیس صرف عمران خان کے خلاف تھا۔ فارن فنڈنگ کیس میں پارٹی اور پوری قیادت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ جس میں منی لانڈرنگ کی تفتیش بھی شامل ہے۔ ذرائع کے بقول پی ٹی آئی رہنمائوں کو ساری عمر یہ انکوائریاں بھگتنا پڑیں گی۔ اس سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ عمران خان دوبارہ وزیراعظم بن کر اپنی پسند کا ایف آئی اے سربراہ لے آئیں، اور یہ انکوائریاں رکوادیں۔ اس کیس میں بعض گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔ جبکہ عمران خان سمیت متعدد رہنما ضمانت پر ہیں۔ ایک مقدمہ پی ٹی آئی چیئرمین سمیت گیارہ رہنماؤں کے خلاف بینکنگ کورٹ میں بھی درج کیا جاچکا ہے۔
اس حوالے سے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن پاکستان کنور دلشاد کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوگئی تو صرف ممنوعہ پیسہ ضبط نہیں ہوگا، بلکہ پی ٹی آئی کے تمام ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دے کر پارٹی دفاتر سیل کئے جاسکتے ہیں۔ کنور دلشاد نے چھ نومبر کی سماعت کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف آنے کی صورت میں الیکشن کمیشن وفاقی حکومت کو ریفرنس بھیجے گا۔ حکومت ریفرنس موصول ہونے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اور پارٹی کے خلاف آرٹیکل سترہ کے تحت ریفرنس دائر کرے گی، جس پر سپریم کورٹ کا ایک فل بنچ سماعت کرے گا۔ تاہم حکومت کی جانب سے ریفرنس بھیجنے سے پہلے الیکشن کمیشن کی سزا کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتی ہے۔ کنور دلشاد نے بتایا کہ ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے کی صورت میں عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے جو اہم رہنما نااہل قرار دیئے جاسکتے ہیں، ان میں گیارہ اکاؤنٹس کھولنے والے رہنما شامل ہیں۔ پی ٹی آئی نے ان رہنمائوں کو قربانی کا بکرا بنایا ہے۔ اور وہ الیکشن کمیشن پاکستان کو تحریری طور پر کہہ چکی ہے کہ ان بینک اکاؤنٹس سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ کنور دلشاد کا یہ بھی کہنا تھا کہ توشہ خانہ کیس اپنی جگہ ہے۔ تاہم ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کا ممکنہ فیصلہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ دیگر سیاسی پارٹیوں کے لئے بھی یہ فیصلہ ایک انتباہ اور مثال بن جائے گا۔
Tags latest urdu news توشہ خانہ کیس عمران خان کیس