ان دہشت گردوں کے پیچھے بہت بڑا نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔فائل فوٹو
ان دہشت گردوں کے پیچھے بہت بڑا نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔فائل فوٹو

’’خودکش بمبار پارا چنار سے اسلام آباد پہنچا تھا‘‘

احمد خلیل جازم:
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خود کش بمبار پارا چنار سے آیا تھا۔ جو کرم ایجنسی کا علاقہ ہے۔ حملہ آور اور اس کے ساتھی پیر ودھائی اور سبزی منڈی کے ایریا میں ٹھہرے تھے۔ جیوفینسنگ کے ذریعے دہشت گردوں کے باہمی رابطوں کا معلوم ہوا اور ہینڈلر سمیت پانچ دہشت گرد پکڑے جا چکے ہیں۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ بھی اسلام آباد حملے میں ملوث پانچ افراد کی گرفتاری کی تصدیق کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ دہشت گرد کرم ایجنسی سے آئے تھے اور راولپنڈی میں قیام کیا۔ ہینڈلر نے حملہ آور کو اسلام آباد پہنچایا۔ ان دہشت گردوں کے پیچھے بہت بڑا نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔

وزارت داخلہ کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد کے آئی ٹین فور میں حملہ ایک منظم طریقے سے کیا گیا۔ اگرچہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ لیکن اس کی پشت پناہی میں ایک سے زیادہ پڑوسی ممالک کا ہاتھ ہے۔ جدید طریقے سے کی گئی تفتیش و تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ جس طرح کے وسائل دہشت گردوں کو فراہم کیے گئے۔ وہ کوئی لوکل گروپ یا کسی دہشت گرد تنظیم کا انفرادی عمل نہیں ہوسکتا۔ انہیں لائنوں پر تفتیش کی جا رہی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق یہ بات درست نہیں کہ گاڑی بارود سے بھری ہوئی تھی۔ صرف ایک خود کش حملہ آور گاڑی میں سوار تھا۔ جس نے بارود سے بھری جیکٹ پہنچ رکھی تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور بے قصور تھا اور اسے راولپنڈی پیر ودھائی کے علاقے سے ہائر کیا گیا تھا۔ حملہ آوروں کی رہائش بھی پیر ودھائی اور سبزی منڈی اسلام آباد کے ایریا میں تھی۔ چونکہ یہ علاقہ بہت زیادہ آبادی پر مشتمل ہے اور خاص طور پر اندرون پیر ودھائی چھوٹے چھوٹے مکانات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں کسی کا چھپ کر رہنا آسان ہے۔ کچھ برس قبل سبزی منڈی کے علاقے سے کچی آبادی کو ختم کیا گیا تھا، کہ وہاں جرائم پیشہ افراد کی بھرمار تھی۔ یہ جرائم پیشہ اب بھی پنڈی اور اس کے ملحقہ علاقوں میں موجود ہیں۔ حکومت کے پاس ان کا کافی ڈیٹا موجود ہے۔ اس میں سے جرائم پیشہ افراد کی چھانٹی کی گئی اور ان لائنوں پر بھی تفتیش کی جارہی ہے۔ جیو فینسنگ کے ذریعے دہشت گرد کے رابطوں کا معلوم ہوا۔ اس کے سہولت کار پیر ودھائی کے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ جن میں سے پانچ افراد کو اٹھایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سبزی منڈی اور پیر ودھائی ملحقہ علاقے ہیں۔ سبزی منڈی سے کچی آبادی سے اٹھ کر جانے والے زیادہ تر پیر ودھائی میں رہائش پذیر ہوئے۔ کیونکہ انہیں سبزی منڈی میں مزدوری ملتی ہے اور وہ اس علاقے سے دور نہیں رہ سکتے۔ ان لوگوں نے جو مکانات کرائے پر لیے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک ایک گھر میں تین سے چار چار خاندان رہائش پذیر ہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ پولیس جس خاندان کی بطور کرائے دار رجسٹریشن کرتی ہے۔ وہ صرف ایک خاندان ہوتا ہے۔ جبکہ دیکھا جائے تو وہ ایک نہیں ہوتا بلکہ اس میں تین عدد اور خاندان بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان کے بچے بھی سبزی منڈی میں مزدوری کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ شدت پسند جیو فینسگ کے بعد بعض سی سی ٹی وی کیمروں میں بھی دکھائی دیا۔ لیکن حیران کن طور پر اس کے کسی کے ساتھ بات چیت یا ملنے کے ٹھوس شواہد ابھی تک قانون نافذکرنے والے اداروں کو نہیں مل سکے۔ کیونکہ بنوں اور خیبر پختون کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں پر اسلام آباد کی سیکورٹی ہائی الرٹ تھی۔ اسی لیے دہشت گرد اپنے ٹارگٹ تک نہیں پہنچ سکا اور اس سے پہلے ہی پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ یہ کہنا کہ آئی ٹین میں ہی اس کا ٹارگٹ تھا۔ یہ بھی حتمی نہیں۔ ہوسکتا ہے وہ اسلام آبادکے ایسے علاقے میں جانا چاہتا ہو جہاں اس خود کش حملے کے اثرات بہت زیادہ ہوتے۔ زیادہ چیک پوسٹوں کی وجہ سے اسے وہاں جانے میں مشکل پیش آئی اور آئی ٹین کے علاقے میں ہی پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ اگر خدانخواستہ یہ اسلام آباد کے کسی اہم علاقے میں پہنچ جاتا اور وہاں صرف اسی طرز کا خود کش دھماکہ ہی کر دیتا تو بین الاقوامی طور پر بہت برے اثرات پڑتے۔ اس وقت چونکہ اسلام آباد کی سیکورٹی ریڈ الرٹ پر ہے۔ اس کے باوجود امریکہ، آسٹریلیا اور سعودی عرب جیسے ممالک نے اپنے شہریوں کے لیے حفاظتی الرٹ جاری کردیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا جو مقصد تھا۔ وہ مکمل نہیں تو کسی حد تک ضرور پورا ہوا ہے۔ وزارت داخلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر مزید ایسی کارروائیوں کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر پیش رفت کر رہی ہے۔ جس میں خاص طور پر پاکستان کے شمالی علاقوں اور فاٹا وغیرہ کی جانب سے آنے جانے والے لوگوں کی کڑی نگرانی کی جائے گی۔ ملک کی تمام ایجنسیوں کو بھی ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔ تاکہ مستقبل میں اس قسم کی کارروائی نہ صرف اسلام آباد بلکہ پورے پاکستان میں نہ ہو اور اس کا پہلے سے ہی سدباب کیا جاسکے۔