وزیر توانائی اویس لغاری کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس نے فریم ورک کو حتمی شکل دے دی، فائل فوٹو
وزیر توانائی اویس لغاری کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس نے فریم ورک کو حتمی شکل دے دی، فائل فوٹو

’’بجلی بریک ڈائون کا معاملہ پراسرار بن گیا‘‘

عمران خان :
ملک بھر میں بجلی کے تاریخی بریک ڈائون کی وجوہات پر معاملہ پراسرار صورتحال اختیار کرگیا۔ دیگر پہلوئوں کے ساتھ ساتھ سرحد کے اندر اور سرحد کے باہر سے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے پاور ہینڈلنگ اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے کمپیوٹرائڈ نظام پر ہیکنگ کے عنصر کو بھی اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے اپنی انکوائری میں شامل کرلیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے انتہائی رازداری سے کام لیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ ملک میں بجلی سپلائی کرنے کا نظام سنبھالنے والی کمپنی کے تمام ماتحت افسران اور کئی اعلیٰ حکام بھی اس سے لاعلم ہیں۔ جبکہ واپڈا کے حکام کو بھی اس حوالے سے کسی بھی قسم کی معلومات سے لاتعلق رکھا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب کے بعد علی الصبح اچانک تقریباً پورے ملک میں بجلی بند ہوگئی تھی۔ یہ ملکی تاریخ میں بدترین بریک ڈائون میں سے ایک ثابت ہوا۔ وجہ نیشنل گرڈ میں آنے والی خرابی بتائی گئی اور تقریباً 12 گھنٹوں کے بعد ملک کے بعض حصوں میں بجلی بحال ہونا شروع ہوئی۔ تاہم تمام شہروں کی بجلی کی بحالی کا عمل منگل کی شام تک مکمل ہو سکا۔ جبکہ ملک بھر کے پاور اسٹیشنوں سے منگل کی رات تک بھی بجلی کی پیداوار اور سپلائی کا عمل شروع نہیں ہو سکا تھا۔ جس کی مکمل بحالی کیلیے حکومت نے آج یعنی بدھ اور کل جمعرات تک کا وقت دیا ہے۔

’’امت‘‘ کی جانب سے اس ضمن میں این ٹی ڈی سی اور واپڈا کے بعض افسران اور ماہرین سے رابطہ کرکے تفصیلی معلومات حاصل کرنے کیلئے رابطے کئے گئے تو تمام ہی افسران کی جانب سے مکمل اور تصدیق شدہ صورتحال اور وجوہات سے لاعلم ہونے کا اظہار کیا گیا۔

دوسری جانب انتہائی باخبر ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق کمیٹی کو تکنیکی معاونت فراہم کرنے والے اہم ماہرین کی ابتدائی رپورٹ میں این ٹی ڈی سی کے منجمنٹ سسٹم کے سافٹ ویئر کی فریکوئنسی بدتریج کم ہو کر بند ہونے کے حوالے سے مزید تحقیقات کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ جس کو مناسب وقت پر ہینڈل نہیں کیا جا سکا۔ ان اطلاعات سے واضح ہے کہ اندرونی اور بیرونی عناصر کے سافٹ ویئر پر اثر انداز ہونے کے باوجود فریکوئنسی میں کمی کا بروقت سراغ لگا کر اس کو بند ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔ تاہم بعض ماہرین کے مطابق اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

بجلی کے اس بریک ڈائون کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اس پر نوٹس لیا گیا اور ایک تین رکنی اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی گئی۔ اس ضمن میں ملک بھر میں موجود ابہام کو دور کرنے کیلئے گزشتہ روز وفاقی وزیرِ توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ ملک میں بجلی کا نظام مکمل بحال کر دیا گیا ہے۔ تاہم اگلے 48 گھنٹوں میں ملک میں بجلی کی کمی رہے گی۔ جبکہ ایٹمی پلانٹ کو دوبارہ شروع ہونے میں 24 سے 48 گھنٹے لگتے ہیں۔

کوئلے کے پلانٹ کو بھی چلانے کے لیے 48 گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ اگلے 48 گھنٹوں میں ملک میں لوڈشیڈنگ رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا ترسیلی نظام محفوظ رہا ہے۔ بجلی کے کارخانے چلانے کے لیے وافر مقدار میں تیل موجود ہے۔ دن کے وقت بجلی کی طلب ساڑھے 11 سے 12 ہزار میگا واٹ ہوتی ہے۔ پرسوں تک سب کچھ بحال ہو جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے 3 رکنی انکوائری کمیٹی بنائی ہے۔ جس کی سربراہی مصدق ملک کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ سے بیرونی مداخلت کے امکان کم ہیں۔ لیکن خدشہ ہے اور تفتیش کرنی ہے کہ کہیں ہمارے سسٹم میں ہیکنگ کے ذریعے بیرونی مداخلت تو نہیں ہوئی۔ کچھ عرصے میں واقعات ہوئے ہیں۔ اس لیے ہیکنگ کے معاملے کو دیکھنا ہے۔ وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کی یہ تفصیلی پریس کانفرنس بھی بریک ڈائون کے 36گھنٹوں بعد کی گئی۔

ادھر بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے اندر یا باہر سے این ٹی ڈی سی کے سسٹم پر ہیکنگ کے امکانات کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ حالیہ برسوں میں دنیا میں ایسے دو واقعات پیش آچکے ہیں۔ جن میں ایسے الزامات سامنے آئے جن میں ہیکنگ کے ذریعے ملکوں کے بجلی اور پانی کے ترسیل کے نظام کو متاثر کر کے بلیک آئوٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔

تازہ ترین واقعہ میں یوکرین کے نیشنل گرڈ اسٹیشن پر ہیکنگ کے حملے کے الزامات کے علاوہ 2018ء میں امریکہ کے بجلی کے نظام کو متاثر کرنے کے الزامات شامل ہیں۔ جن میں بظاہر ان ملکوں کے حکام کی جانب سے روسی ہیکرز کو مورد الزامات ٹھہرایا گیا اور اس ضمن میں دنیا بھر کے جرائد میں خبریں شائع ہوئیں۔ امریکہ کے واقعہ میں حکام کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا کہ ہیکرز مبینہ طور پر بجلی کی ترسیل کے مرکزی نظام میں داخل ہونے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ تاہم ان اس کو بروقت کائونٹر کرلیا گیا تھا۔

’’امت‘‘ کو این ٹی ڈی سی کے حوالے سے ایک ماہر نے بتایا کہ جب 1998ء میں میں این ٹی ڈی سی کو ملک میں بجلی سپلائی کرنے والی خود مختار کمپنی کی حیثیت سے علیحدہ کیا گیا تو بتدریج اس کے نظام کو جدید بنایا گیا۔ اس وقت واپڈا اور دیگر پاور پلانٹ ہائوسز کی جانب سے بجلی پیدا کرکے این ٹی ڈی سی کے نیشنل گرڈ اسٹیشن کو سپلائی کردی جاتی ہے۔ جہاں سے اس کو ملک بھر میں ضرورت کے مطابق تقسیم کردیا جاتا ہے۔

اس وقت وزارت توانائی کے انرجی ڈویژن کے ماتحت کام کرنے والی این ٹی ڈی سی کے ملک میں موجود مرکزی کمانڈ اینڈ مانیٹرنگ سسٹم میں اتنی قابلیت ہے کہ یہاں موجود کمپیوٹرائزڈ نظام سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ نیشنل گرڈ اسٹیشن سے کس تقسیم کار کمپنی کو کتنی بجلی سپلائی کی گئی اور وہاں سے کتنی بجلی صارفین کی دی گئی۔ جبکہ ملک بھر کے تمام گرڈ اسٹیشنوں کی بھی مسلسل مانیٹرنگ کی جاسکتی ہے کہ کس گرڈ اسٹیشن کو کتنی سپلائی ہوئی اور اس گرڈ اسٹیشن سے آگے کتنی سپلائی کی گئی۔ اس سے بجلی کی چوری کا بھی بروقت سراغ لگایا جاسکتا ہے۔

گزشتہ عرصہ میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں یہ مانیٹرنگ اور منجمنٹ نظام زیادہ تر ہارڈ ویئر سے سافٹ ویئر پر منتقل ہوچکا ہے۔ یعنی زیادہ تر نظام کمپیوٹرائزڈ ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیشنل گرڈ اسٹیشن پر کسی اثراندازی کے نتیجے میں جب فریکو ئنسی کم ہونا شروع ہوئی تھی تو بروقت مانیٹرنگ سے اس کا سراغ لگا کر اس کو کائونٹر کیے جانے کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس ضمن میں وزیر اعظم اور وفاقی وزیر توانائی اعلیٰ سطح کمیٹی کے ذریعے این ٹی ڈی سی کے ماہرین سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ہیکنگ اور کسی کوتاہی کے حوالے سے رپورٹ آنے کے بعد متعلقہ اداروں کو مزید کارروئی کے لئے الرٹ کیا جاسکتا ہے۔