نواز طاہر :
پی ٹی آئی کارکن علی بلال عرف ظلِ شاہ کی موت ٹریفک حادثے میں ہونے کی تصدیق کے باوجود پی ٹی ٹی آئی قیادت روایتی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ تحریک انصاف کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ علی بلال کیس پر جوڈیشل انکوائری کرانے کے مطالبے کا پلان تیار کیا گیا ہے۔
اس کا مقصد پنجاب پولیس اور نگران صوبائی حکومت پر دبائو بڑھانا ہے۔ دوسری جانب متوفی کے لواحقین نے ٹھوس شہادتوں کے بعد بیٹے کی موت کو اللہ کی رضا تسلیم کرلیا ہے اور پی ٹی آئی کا سیاسی آلہ کار بننے کو تیار نہیں۔ کسی بھی وقت اس حادثے سے جڑے زیر حراست افراد سے ان کی ملاقات کروائی جائے گی۔ جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اتوار کو ریلی نکالنے کا اعلان کردیا ہے۔
یاد رہے کہ آٹھ مارچ کو پی ٹی آئی اور پولیس میں تصادم کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے میڈیا کو قومی شناختی کارڈ کی کاپی فراہم کرتے ہوئے آگاہ کیا گیا تھا کہ اس کا کارکن علی بلال المعروف ظلِ شاہ پولیس کے تشدد سے ہلاک ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ مزید دو کارکنوں کے بارے میں بھی انفارمیشن شیئر کرنے کے بعد ڈیلیٹ کردی گئی تھی۔ظلِ شاہ کا قاتل پولیس اور حکومت کو قراردیا گیا۔ جبکہ حکومت نے پی ٹی آئی کا دعویٰ مسترد کردیا تھا۔ ابتدائی پوسٹمارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ تشدد بیان کی گئی تھی اور جسم پر ضربات کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے میڈیا سیل کی جانب سے علی بلال عرف ظلِ شاہ کی ہلاکت کے اعلان سے پہلے ہی حکومت کے متعلقہ اداروں کو سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے رپورٹ دی جاچکی تھی کہ اس کارکن کی ہلاکت ٹریفک حادثے میں ہوئی ہے اور حکومت نے متعلقہ اداروں کی مدد سے ابتدائی شواہد اکٹھا کرنے شروع کردیے تھے، جن کی ابتدا سروسزاسپتال سے کی گئی تھی۔ ابتدائی تسلی کے بعد ہی صوبائی حکومت کی طرف سے ہلاکت کی وجہ حادثہ قراردیا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی میت لانے والی گاڑی کی تمام راستوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا معائنہ کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں نگران وزیر اعلیٰ اور انسپکٹر جنرل پولیس نے چیدہ چیدہ نکات میڈیا کے سامنے پیش کردیئے اور کچھ شواہد ابھی سامنے نہیں لائے گئے۔ ان شواہد کے بارے میں انسپکٹر جنرل پولیس نے علی بلال المعروف ظلِ شاہ کے والدین کو آگاہ کردیا ہے۔ کچھ شواہد دکھا دیے گئے ہیں اور کچھ ابھی مزید دکھانے ہیں۔
ہفتے کو آئی جی پولیس نے علی بلال عرف ظلِ شاہ کے والدین کو اب تک اس کیس سے مختلف حوالوں سے جڑے ہوئے اور زیر حراست دس افراد سے ملاقات کروانے اور ان سے اپنے بیٹے کی موت کے بارے میں سوالات کرکے تسلی کرنے کی پیش کش بھی کی ہے، جس پر عملدرآمد کسی وقت بھی (یہ سطور پڑھے جانے سے پہلے) ہوسکتا ہے۔
ظلِ شاہ کے خاندانی ذرائع کے مطابق پولیس کی جانب سے جو ناقابلِ تردید شواہد فراہم کیے گئے ہیں وہ قابلِ قبول ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت اگر چاہتی تو اگلے روز بھی یہ شواہد فراہم کرسکتی تھی۔ لیکن پی ٹی آئی کی سیاسی بیان بازی کی ہائپ دیکھنے کیلیے ان شواہد کو مزید فول پروف بنایا گیا اور ساتھ ہی پی ٹی آئی کے رہنما راجا شکیل اور ڈرائیور جہانزیب، علی بلال کے ساتھ حراست میں لیے جانے کے بعد پولیس کی قیدی وین سے فرار ہونے والے چار ساتھی اور پولیس وین پر ڈیوٹی دینے والے تین اہلکار بھی حراست میں لے لیے گئے۔یہ تفصیلات وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس سے پہلے ہی متاثرہ خاندان کو فراہم کردی گئی تھیں۔
وزیراعلیٰ کی پریس کانفرنس میں زیر حراست گاڑی کے مالک راجا شکیل اور پی ٹی آئی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد کی گفتگو کی تصدیق پی ٹی آئی کے ذرائع نے بھی کی ہے اور بتایا ہے کہ راجا شکیل کو انڈر گرائونڈ کرنے اور محفوظ مقام پر منتقل ہونے کے ساتھ ہی میڈیا سیل کو متحرک کیا گیا تھا اور اس کی حکمتِ عملی کے تحت ایسی خبریں بھی چلائی گئی تھیں کہ حکومت اس ہلاکت کو ٹوئسٹ کرے گی۔ جیسے ہی پی ٹی آئی کی قیادت کو اطلاع ملی کہ پولیس راجا شکیل کو حراست میں لے چکی ہے اور علی بلال ظلِ شاہ کے والد سے بھی رابطہ ہوگیا ہے، تو ساتھ ہی میڈیا سیل سے وابستہ ٹیم کو علی بلال کے والد لیاقت کی کردار کشی کی ذمے داری سونپی گئی۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ علی بلال ظلِ شاہ کی ہلاکت کے فوری بعد بھی ویسی ہی تحریر اور بیان سامنے لایا گیا جیسے عمران خان کے کنٹینر تلے آکر خاتون صحافی صدف نعیم کی ہلاکت کے بعد اس کے شوہر سے تحریر لکھوائی گئی تھی ۔ علی بلال کے قریبی خاندانی ذرائع کے مطابق مذہبی رحجان رکھنے والے خاندان نے بیٹے کی ہلاکت پر کسی بے قصور کو کسی صورت نہ پھنسنے دینے سے بچنے کیلیے فوری طور پر بیان ریکارڈ کروایا تھا۔ خاندان کے سربراہ لیاقت علی ہر قسم کے لالچ کی نفی کردی تھی جس میں دیگر اہلِ خانہ اور رشتہ داروں کا بھی اہم کردار بیان کیا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں نے علی بلال ظلِ شاہ کے انتہائی قریبی رشتے داروں سے بھی رابطے کیا اور لیکن ’ٹارگٹ‘ حاصل نہ ہونے پر ظل ِ شاہ کے خاندان کو ’لیگی خاندان‘ بھی قراردیا گیا۔ ظلِ شاہ کے قریبی خاندانی ذرائع کے مطابق متاثرہ خاندان ایک جانب بیٹے کے سوگ میں نڈھال ہے تو دوسری جانب تحقیقاتی اداروں، سیاسی افراد اور ہمدردی رکھنے والوں کا تعزیت کیلیے تانتا بندھا ہے۔ جنہیں بٹھانے کیلیے متاثرہ خاندان کے پاس جگہ نہیں اور گلی میں شامیانہ ہی ڈرائنگ روم بنایا گیا ہے۔
پولیس کی غیر سرکاری تصدیق کے مطابق علی بلال ظلِ شاہ اور اس کے چار ساتھی پولیس کی قربان لائن کے قریب رفع حاجت کے بہانے پولیس وین سے اترکر بھاگے تھے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ پولیس اہلکاروں نے خود ہی انہیں چھوڑا دیا تھا جیسا کہ تصادم کے دوران بھی پولیس اہلکار حراست میں لئے جانے والے کارکنوں کو چھڑاتے دکھائی دیے تھے۔ اس کی وجہ پولیس میں گذشتہ سال پچیس مئی کو ڈیوٹی دینے والوں کے خلاف پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف سے کی جانے والی کارروائی کا خوف غالب ہونا ہے۔ لیکن علی بلال ان کے ساتھ بھاگنے کے بجائے اپنے ہی انداز میں سڑک کے درمیان چلنے لگا، جس کے دوران ویگو ڈالے سے حادثہ ہوگیا۔
متاثرہ خاندان کے ذرائع کے مطابق اس وقت تک کے شواہد کے مطابق علی بلال ظلِ شاہ کی موت کسی منصوبہ بندی کے نتیجے میں ہونے والا قتل نہیں، صرف ایک حادثہ ہے، جس میں وہ بیٹے سے محروم ہوگئے۔ جبکہ ڈرائیور کو بُرے وقت نے گھیر لیا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت کی کوشش ہے کہ کسی طرح بھی اس معاملے کی عدالتی انکوائری کروائی جائے تاکہ پولیس اور نگراں حکومت کو پریشر میں رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے سچائی کی نفی کرتے ہوئے ظلِ شاہ کی موت کو پولیس تشدد سے قتل قراردیا ہے اور آج اتوار کو پھر لاہور میں ریلی نکالنے کا اعلان کردیا ہے۔