امت رپورٹ:
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین تین ارب ڈالر کا معاہدہ طے پا گیا ہے تو دوسری جانب خلیجی ممالک بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جارہے ہیں۔ جبکہ سی پیک پر کام کی رفتار بڑھا دی گئی ہے۔
اس ساری پیش رفت کے بیک گراؤنڈ سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کا اس میں اہم رول ہے۔ اس سلسلے میں ان کے خلیجی ممالک اور چین کے حالیہ دوروں کو خاص اہمیت دی جارہی ہے۔ ذرائع کے بقول پاک فوج نے سیاسی پارٹیوں کو میثاق معیشت کا واضح پیغام دیا اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں اپنے پورے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ قصہ مختصر موجودہ عسکری و سیاسی قیادت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ چاہے کوئی ہنگامی پلان بنانا پڑے، معیشت کو ہر صورت چلانا ہے۔
ذرائع کے مطابق موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، بحرین اور چین بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ یہ سارے ممالک پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ اس حوالے سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے اربوں ڈالرز کی بڑی سرمایہ کاری کنفرم ہو چکی ہے، کویت اور بحرین اس کے فالو اپ میں ہیں۔ ان ممالک نے کہا ہے کہ ’’جتنے ڈالرز کی بھی سرمایہ کاری آپ کو درکار ہے ہم کر دیں گے لیکن ہمیں صرف اپنے پیسے اور سرمایہ کاری کے محفوظ ہونے کی گارنٹی چاہئے۔‘‘
ذرائع نے بتایا یہ گارنٹی انہیں دیدی گئی ہے۔ جس کے تحت خلیجی ممالک کو یقین دلایا گیا ہے کہ ان کا سرمایہ محفوظ رہے گا اور جن پروجیکٹس میں وہ پیسہ لگائیں گے وہ آنے والی نئی حکومت ختم نہیں کرے گی۔ گارنٹی طلب کرنے کی وجوہات پر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ ٹرینڈ رہا ہے کہ ایک حکومت کے دور کی پالیسی اور پروجیکٹس آنے والی حکومت عموماً ختم کر دیتی ہے۔ جیسا کہ نون لیگ کے دور میں شروع ہونے والے سی پیک کو عمران خان کی حکومت نے امریکی خوشنودی کے لئے جان بوجھ کر بریک لگایا یا اس کی رفتار انتہائی کم کر دی تھی۔ ورنہ سی پیک پر جس تیزی کے ساتھ کام ہو رہا تھا اب تک اس پروجیکٹ کا دوسرا فیز مکمل ہو چکا ہوتا۔
سفارتی ذرائع کے بقول چینی حکام اپنی دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں آنے والی کسی تلخی یا شکایت پبلک میں عموماً اظہار نہیں کرتے۔ سی پیک کو بریک لگانے سے متعلق شکایات کو بھی وہ پبلک میں تو سامنے نہیں لائے لیکن انہیں اس پر سخت شکوہ ہے۔ گزشتہ برس ایک نجی تقریب میں ایک چینی سفارتکار سے ملاقات کرنے والے ایک ذریعے نے بتایا کہ اس غیر رسمی بات چیت کے دوران چینی سفارتکار نے شکایتی لہجے میں تصدیق کی تھی کہ عمران خان کے دور میں سی پیک متاثر ہوا۔ تاہم پی ٹی آئی کے دور میں سی پیک کو جو بریک لگایا گیا تھا، وہ اب ہٹ چکا ہے اور اس پروجیکٹ کے دوسرے فیز پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق جیسے ماضی میں سی پیک کی سیکورٹی سے متعلق اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بیجنگ کو خصوصی گارنٹی دی تھی، جس پر چین نے بے دھڑک ہو کر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اب موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی چین جاکر اسی قسم کی یقین دہانی کرائی ہے۔ چنانچہ چین سی پیک پر مزید اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ دوسرے فیز کا کام جلد مکمل کیا جا سکے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعت کاری کو تیز کرنے کے لئے ہر صوبے میں خصوصی اقتصادی زون بنائے جائیں گے۔
واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپریل کے آخر میں چین کا چار روزہ سرکاری دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں انہوں نے پیپلز لبریشن آرمی کی قیادت سے ملاقاتیں کیں اور دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ ذرائع کے بقول اسی موقع پر سی پیک کی سیکورٹی اور اسے تیزی سے آگے بڑھانے پر بھی اتفاق ہوا اور آرمی چیف نے چینی حکام کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
ذرائع کے بقول چونکہ اب اس میثاق معیشت کا فوج بھی حصہ ہے، لہٰذا سیاسی و عسکری قیادت اسے مل کر چلائے گی۔ یاد ر ہے کہ بطور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ملک کو بدترین معاشی بحران سے نکالنے کے لئے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو متعدد بار میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی لیکن متکبر عمران خان نے اسے حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔ تاہم اب پیپلز پارٹی اور نون لیگ سمیت اتحادی پارٹیوں کی اکثریت کے مابین میثاق معیشت ہو چکا ہے اور سب نے اتفاق کیا ہے کہ کوئی ایک پارٹی ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نہیں نکال سکتی چنانچہ سب کو مل کر کوشش کرنا ہو گی۔ ذرائع کے بقول دبئی میں ہونے والے حالیہ مذاکرات میں جہاں دیگر معاملات زیر بحث رہے ان میں سے ایک میثاق معیشت بھی تھا جسے عسکری قیادت کی بھرپور تائید حاصل ہے۔
واضح رہے کہ جون کے تیسرے ہفتے میں سول ملٹری قیادت نے ایک ’’اقتصادی بحالی کا منصوبہ‘‘ پیش کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ سی پیک سے بڑا پلان ہے، تاکہ ترقی کے ساتھ ملک کی شرح نمو کو بڑھایا جا سکے۔ یہ منصوبہ مقامی ترقی اور خاص طور پر خلیجی ممالک سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے اہم شعبوں میں ملک کی غیر استعمال شدہ صلاحیت کو بروئے کار لانے اور منصوبے پر عمل درآمد کو تیز کرنے سے متعلق ہے۔ جس کے لیے حکومت نے ایک ’’ا سپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل‘‘ (SIFC) قائم کی، جو سرمایہ کاروں کے لیے ایک ہموار انٹر فیس کے طور پر کام کرے گی اور فوج کی مدد سے سرمایہ کاری میں تمام رکاوٹوں کو دور کرے گی۔
اس منصوبے کی نقاب کشائی وزیراعظم ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران کی گئی تھی، جس کی صدارت وزیراعظم شہباز شریف نے کی۔ اس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی تھی۔ جبکہ وزرائے اعلیٰ اور اہم وفاقی و صوبائی وزراء بھی موجود تھے۔ ذرائع کے بقول SIFC کے تحت، پندرہ سے بیس ملین افراد کو براہ راست ملازمتوں کے مواقع فراہم کیے جائیں گے اور اگلے چار سے پانچ برسوں میں مزید پچھتر سے ایک سو ملین افراد کو بالواسطہ ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
اس کے ساتھ SIFC منصوبہ اگلے چار سے پانچ سالوں میں ستر ارب ڈالر کی برآمدات اور مساوی رقم کا ’’امپورٹ متبادل‘‘ پیدا کرے گا۔ یہ منصوبہ پاکستان کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں ایک سو ارب ڈالر کا اضافہ کرے گا۔ منصوبے کے تحت آئندہ چار سے پانچ سالوں میں زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ کیا جائے گا جس سے ملک کو درپیش معاشی مشکلات میں کمی آئے گی۔ اس منصوبے میں پاک فوج اپنی تمام تر توانائی منصوبے کے انتظام، رابطہ کاری اور کامیابی پر صرف کرے گی۔
ذرائع کے مطابق خلیجی ممالک کی جانب سے ابتدا میں بیس سے پچیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے پھر بتدریج اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الحال پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت سی پیک چلانے اور گوادر میں آئل ریفائنری لگانے کی ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں آئل ریفائنری لگانے کا اعلان کیا تھا۔ جنوری دو ہزار انیس میں، سعودی وزیر توانائی نے پاکستان کے دورے کے دوران اس منصوبے کا اعلان کیا اور کہا تھا کہ عرب قوم پاکستان کے گہرے پانی کی بندرگاہ گوادر میں دس ارب ڈالر کی آئل ریفائنری قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ تاہم بوجوہ اس منصوبے پر عمل نہیں ہو سکا تھا۔ اب سعودی عرب نے دوبارہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ انرجی ہے۔ گوادر میں آئل ریفائنری لگانے سے سعودی عرب کو سی پیک کا روٹ مل جائے گا اور وہ اپنا تیل ریفائن کر کے اسے افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں سے لے کر افریقہ اور یورپ تک پہنچا سکتا ہے۔ یوں یہ مجوزہ آئل ریفائنری صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خود سعودی عرب کے مالی مفاد میں بھی ہے۔ اپنی اس آئل ریفائنری میں سرمایہ کاری کے حوالے سے سعودی عرب کو جو گارنٹی درکار ہے، اس بار اسے مل جائے گی۔