ارشاد کھوکھر:
ملک بھر میں نگراں حکومتی سیٹ اپ کے قیام کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ تاہم ابھی تک سندھ کی نگراں حکومت پر پیپلز پارٹی کا اثر و رسوخ برقرار ہے۔ جس میں اہم کردار خود نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر ادا کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں محکمہ خزانہ سمیت کئی اعلیٰ انتظامی افسران کو ہٹانے کیلیے سرگرمیاں بھی تیز کردی گئی ہیں۔ جبکہ صوبائی وزیر بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز سے محکمہ جیل خانہ جات کا قلمدان بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کی خواہش پر ہی واپس لیا گیا ہے۔
نگران صوبائی وزیر بلدیات مبین جمانی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تعینات بعض افسران کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ لیکن وزیر اعلیٰ ہائوس نے ان کی سفارشات کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔ نگران وزیر یونس ڈھاگا سے محکمہ خزانہ کا قلمدان واپس دلوانے میں کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت اب تمام تر زور سیکریٹری محکمہ خزانہ کاظم جتوئی کو ہٹوانے پر لگارہی ہے۔
پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں نگران حکومت کا سیٹ اپ پہلے ہی آچکا تھا۔ تاہم بلوچستان اور سندھ میں بھی نگراں حکومت کے سیٹ اپ کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ خصوصاً سندھ میں نگراں حکومت کے قیام کے بعد معمول کے مطابق تمام محکموں کے اعلیٰ انتظامی افسران تمام ڈویژن و اضلاع کی پولیس و انتظامیہ کی تقرری و تبادلوں کیلئے نگراں حکومت نے جو تجاویز تیار کی تھیں۔
اس کے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت خصوصاً سابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے قریبی جاننے والے افسر آغا واصف نے وہ تجاویز بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم مذکورہ تقرریوں و تبادلوں کی اجازت لینے کیلئے الیکشن کمیشن کے پاس جب وہ تجاویز ارسال کی گئیں تو الیکشن کمیشن نے ان میں سے تقریباً سات ماہ کے سیکریٹری سمیت مختلف عہدوں پر نگراں حکومت کی جانب سے تجویز کردہ سفارشات کے برعکس دیگر افسران کو تعینات کرنے کی منظوری دی۔ جس پر نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے تحفظات بھی ظاہر کیے تھے۔ اس میں خصوصاً نگراں وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری کے عہدے کیلئے تجویز کیے گئے افسر آغا واصف کے مذکورہ عہدے کے بجائے سیکریٹری محکمہ ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی کی منظوری شامل تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے خود چیف الیکشن کمشنر سے بات چیت کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اپنی مرضی کا پرنسپل سیکریٹری تعینات کرانا چاہتے ہیں۔ اس لئے آغا آصف کو ان کا پرنسپل سیکریٹری تعینات کیا جائے۔ جس پر الیکشن کمیشن کے متعلقہ حکام نے رضامندی ظاہر کردی تھی۔ تاہم بعد میں الیکشن کمیشن کو افسران کی تقرری و تبادلے کے متعلق جو ریکوزیشن ارسال کی گئی۔ اس میں آغا واصف کو وزیراعلیٰ کا پرنسپل سیکریٹری تعینات کرکے وہاں سے، حسن نقوی کا سیکریٹری محکمہ خزانہ کے عہدے پر تبادلہ کر کے وہاں سے کاظم جتوئی کا سیکریٹری محکمہ لائیو اسٹاک و فشریز کے عہدے پر تبادلہ کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو آغا واصف کو نگراں وزیراعلیٰ کا پرنسپل سیکریٹری تعینات کرنے پر اعتراضات نہیں تھے۔ لیکن اس کی آڑ میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے دوران زیادہ تر عرصہ سیکریٹری خزانہ کے عہدے پر تعینات رہنے والے حسن نقوی کو سیکریٹری خزانہ کے عہدے پر تعینات کرنے پر اعتراضات تھے۔ کیونکہ آغا واصف کی طرح حسن نقوی بھی سید مراد علی شاہ کے انتہائی قریب رہے ہیں۔
مذکورہ ذرائع کا کہنا تھا کہ مذکورہ تبادلوں کے پیچھے اصل کہانی یہ تھی کہ کسی طرح کاظم جتوئی کو سیکریٹری خزانہ کے عہدے سے ہٹوایا جائے۔ کیونکہ دیکھا جائے تو محکمہ خزانہ کا شمار کرپشن کے قبرستان کے طور پر ہوتا ہے۔ مختلف محکموں میں جتنی بھی کرپشن ہوتی ہے۔ اس کو دفن کرنے میں محکمہ خزانہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اور محکمہ خزانہ کا قلمدان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سید مراد علی شاہ کے پاس رہا ہے۔ اور وہ جب خود وزیر اعلیٰ بنے تو پھر بھی محکمہ خزانہ کا قلمدان ان ہی کے پاس تھا۔
19 اگست 2023ء کو جب نگراں صوبائی کابینہ کا قیام عمل میں آیا تو محکمہ ریونیو کے ساتھ محکمہ خزانہ اور محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کا قلمدان نگراں صوبائی وزیر یونس ڈھاگا کو دیا گیا۔ جس پر پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ بھانپ لیا تھا کہ منجھے ہوئے مذکورہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ پر ان کے دور حکومت میں مختلف پروجیکٹس، پنشن فنڈز سمیت مختلف مد میں جو اضافی ادائیگیاں کی گئی ہیں، اس کے معاملات کھل سکتے ہیں۔ اس لئے 14 ستمبر 2023ء کو نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے یونس ڈھاگا سے محکمہ خزانہ اور محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے قلمدان پیپلز پارٹی کی خواہش پر واپس لئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کا اب دوسرا ٹارگٹ یہ ہے کہ کسی بھی طرح سیکریٹری خزانہ کے عہدے پر تعینات افسر کاظم جتوئی کو ہٹوایا جائے۔ کیونکہ وہ بھی پیپلز پارٹی کے خواہش کے برعکس مذکورہ محکمہ کے سیکریٹری تعینات ہوئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں نگراں وزیر اعلیٰ سندھ نے مذکورہ افسر کو اپنے پاس بلواکر کہا تھا کہ آپ کو سیکریٹری خزانہ کے عہدے سے ہٹانا ہے۔ آپ اور کون سے محکمہ میں جانا چاہتے ہیں۔ اس کے متعلق اپنی خواہش بتائیں۔ تو انہوں نے نگراں وزیراعلیٰ کو محکمہ لائیو اسٹاک و فشریز کی چوائس بتائی تھی۔ جہاں تک ایک افسر کا تعلق ہے تو وزیر اعلیٰ اگر انہیں ہٹانا چاہتے ہیں تو وہ انکار کیسے کر سکتے ہیں۔ تاہم انہیں ہٹانے پر مقتدر حلقوں کو بھی شدید اعتراضات تھے۔ اس سلسلے میں نگراں صوبائی حکومت کاظم جتوئی کو ہٹانے کیلئے دو مرتبہ کوششیں کرچکی ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے نگراں حکومت کی سفارش کو مسترد کر دیا ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کی قیادت انہیں ہٹوانے کے لئے تاحال سرگرم ہے۔
دو روز قبل نگراں صوبائی وزرا کے محکموں کے قلمدان میں تبدیلی کی گئی ہے۔ جن میں سے صوبائی وزیر داخلہ و جیل خانہ جات بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز سے محکمہ جیل خانہ جات کا قلمدان واپس لے کر وہ قلمدان وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنے پاس رکھا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ تبدیلی بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کی سفارش پر کی گئی ہے۔ نگراں صوبائی وزیر نے محکمہ جیل خانہ جات میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت سے چلا آرہا نیٹ ورک توڑ کر بعض افسران کی مذکورہ محکمہ میں تعیناتی کی تھی۔ جس پر پیپلز پارٹی کو شدید تحفظات تھے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہاں کسی سینئر افسر کو نوازا گیا ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ نگراں وزیر بلدیات مبین جمانی نے محکمے میں بعض افسران کی تقرریوں و تبادلوں کی سفارشات ارسال کی تھیں۔ جن میں خصوصاً نگراں وزیر بلدیات، ایم ڈی، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے عہدے پر تعینات امتیاز شاہ کو ہٹاکر ان کی جگہ ایک اور افسر کو تعینات کرانا چاہتے تھے۔ لیکن ان سفارشات کو بھی وزیر اعلیٰ ہائوس نے دبا دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کا کردار اپنی جگہ۔ لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے سندھ بھر کی انتظامیہ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کنٹرول وزیر اعلیٰ ہائوس کے دو اعلیٰ افسران کے ذریعے برقرار رکھا ہوا ہے۔